عالمی یوم خواتین اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی
تحریر:غنی محمودقصوری
یہ بات بالکل حقیقت ہے کہ معاشرے کا حسن و خوشنمائی عورت سے ہی ہے اور عورت کی پر خلوص قربانیاں اور لازوال جدوجہد بھی ہمارے اس دنیاوی نظام کا حصہ ہے ، بیشتر تہذیبوں،معاشروں اور مذاہب میں عورت کو وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق تھی مگر اسلام نے زندہ درگور ہوتی عورت کو برابری کے حقوق دیئے اور عورت کو وہ مقام دیا جو نا تو پہلی شریعتوں میں تھا نا تہذیبوں میں

اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں، تاریخ کا مطالعہ تو دور کی بات آپ موجودہ دور کا ہی مطالعہ کریں اور اپنے ارد گرد دیکھیں تو اس نرم و نازک مخلوق ،صنف نازک کو گناہ کی جڑ اور مرد کے پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے جو کہ بالکل اسلام کے مخالف بات ہے ،ایسی باتیں کرنے والے یا تو اسلام کی تاریخ سے واقف نہیں یا پھر وہ اسلام کے ماننے والے ہی نہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے قرآن میں کئی آیات صنف نازک کے حق میں نازل کی ہیں جیسے کہ حقوق نسواں بارے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ(النساء4 :34)
ترجمہ۔عورت کے لئے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے

یعنی کہ اسلام نے واضع طور پہ بتلا دیا کہ جیسے مردوں کے حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے بھی حقوق ہیں جو ان کو ان حقوق سے محروم رکھے گا وہ گناہگار ہو گا

آج سے 116 سال قبل امریکہ کے شہر نیویارک میں گھروں،فیکٹریوں اور دفتروں میں کام کرنے والی ہزاروں عورتوں نے اس وقت اپنی کم آمدنی اور زیادہ ڈیوٹی پر اور ووٹ کاسٹ کرنے کے حق کے لئے احتجاج کیا تھا جس کا سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے خیر مقدم کیا اور باقاعدہ دن منانا شروع کیا ،اس کے بعد کلارا زتکن کیمونسٹ خاتون نے 1910 کو کوپن ہیگن میں انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن میں اس دن کو عالمی طور پر منانے کا اعلان کیا جسے 17 ممالک کی 100 سے زائد خواتین نے سراہا اور اس وقت پوری دنیا کے ساتھ پاکستان میں بھی 8 مارچ کو یوم خواتین منایا جاتا ہے

میں ہر سال عالمی یوم خواتین پرسارا دن پاکستان میں ہونے والی سرگرمیاں دیکھتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ انٹرنیشنل وویمن ڈے منانے کا جو مقصد تھا وہ آج نہیں رہا کیونکہ اس وقت کی عورتوں نے اپنی کم تنخواہوں اور زیادہ گھنٹے کام لینے پر احتجاج کیا تھا آج تو ایسا ہے ہی نہیں،آج تو پوری دنیا خاص کر پاکستان میں عورت کو مرد کے برابر اور اگر مرد سے زیادہ مقام ملنے کا کہوں تو غلط نا ہو گا

آپ دنیا کو چھوڑیں پاکستان میں دیکھیں عورت،جج،وکیل،ڈاکٹر،صحافی،جنرل، وزیراعظم،وزیراعلی و دیگر اعلی عہدوں تک نہیں پہنچی ؟
اگر پہنچی ہوئی ہے تو آج کی عورت کس لئے پاکستان میں یہ مارچ کر رہی ہے؟

یہ عورت مارچ کرے اسی امریکہ کے خلاف کہ جہاں سے حقوق نسواں کا پہلا مارچ شروع ہوا اور وہیں امریکہ کے شہر میں پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی جیل میں بلک بلک کر سسک سسک کر قید کاٹ رہی ہے ،کیوں حقوق نسواں والیوں کو یہ عورت نظر نہیں آتی؟کیا یہ عورت نہیں اور اس کے کوئی حقوق نہیں؟ جب سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی قید ہوئی ہیں تب سے کسی ایک عالمی یوم خواتین کے دن عورت مارچ میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے آواز نہیں اٹھائی گئی،جس پر سوچنے والے سوچتے ہیں کہ کیا اس لئے نہیں اٹھائی گئی کہ ڈاکٹر عافیہ بڑی حد تک مذہبی خاتون تھیں ؟

آج پاکستان میں عورت مارچ میں حقوق نسواں کے عالمی دن میں یہ نعرہ تو لگتا ہے اپنا کھانا خود گرم کرو مگر وہیں وہ عورتیں بھی موجود ہوتی ہیں جو گھنٹوں دفتروں،فیکٹریوں، کارخانوں میں کام کرتی ہیں ایسی عورتوں سے سوال ہے کہ بی بی تمہیں اپنے گھر میں اپنے بھائی،بیٹے اور شوہر کا کھانا گرم کرتے تو تکلیف ہوتی ہے کیا وہی تکلیف تمہیں دفتروں،فیکٹریوں میں کام کرتے بھی ہوئی ہے کبھی؟

سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ خودساختہ نعرے کس نے اور کیوں لگوائے کیونکہ اللہ رب العزت نے مرد کو نگران مقرر کیا اور اس کے ذمے عورت کی کفالت بطور بیوی،بیٹی بہن اور ماں کی صورت میں لازم کی ہے پھر یہ کون عورت ہے جو مرد کی کفالت میں تو گھٹن محسوس کرتی ہے مگر دفتر میں نہیں؟

سوچنے والے سوچتے ہیں کہ اسلام نے تو یہاں تک مرد کو حکم دیا کہ اگر اس کی جسمانی اور مالی حالت فٹ ہے تو وہ بیک وقت چار عورتوں کو نکاح میں لے کر ان کا نان و نفقہ پورا کرے پھر عورت مارچ میں مردوں سے آزادی مانگنے والیاں کون ہیں؟یہ کیا چاہتی ہیں ؟کہیں یہ حقوق نسواں مارچ کی آڑ میں اسلام سے آزادی تو نہیں چاہتیں ،

اگر ایسا ہے تو سوچ لیں اگر اسلام نہ آتا تو آج دنیا میں عورت زندہ درگور بھی ہو رہی ہوتی اور وراثت کے حق سے محروم بھی رہتی اور بطور ماں اس کے قدموں تلے جنت بھی نہ ہوتی اور بطور بیٹی اور بہن رحمت بھی نہ ہوتی ،سوچئیے ذرا سوچئیے….

Shares: