اسلام خطرے میں
14 مارچ 2024 کو احسان اللہ ٹیپو محسود، احسان ٹیپو نے ایک ٹویٹ کی ،جس میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مردان کے میئر حمیت اللہ مایار نے مردان میں کے ایف سی ریسٹورنٹ بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سٹی لوکل کونسل کے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی قرارداد میں مقامی تاجر برادری کو مردان میں تمام اسرائیلی مصنوعات کی فروخت بند کرنے کی ہدایات کی گئیں،
میرے ایک دوست نے جواب دیا، "وہ ایسا کر رہا ہے کیونکہ خیبر پختونخوا نے تقریباً 2 سالوں میں بلدیاتی اداروں کو کوئی فنڈ جاری نہیں کیا۔ ان لوگوں کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔ زیادہ تر، ان کا کردار پرائمری اسکولوں کا "دورہ”ہوتا ہے ،تقرری و تبادلوں کے لئے لڑنا اور نلکے و نالے کو ٹھیک کرنا، انکا یہ کام ہوتا ہے، اگر انہیں اور بہت ساری مقامی حکومتوں کو وعدے کے مطابق وسائل فراہم کیے جاتے تو وہ کام کرتے اور پھر ان کے پاس کے ایف سی پر پابندی کی قراردادیں پاس کرنے کا وقت نہیں ہوگا۔
کوئی بھی وجہ ہو، پاکستان جیسے انتہائی غیر مستحکم ملک میں کسی بھی طرح سے مذہبی کارڈ کھیلنا انتہائی خطرناک ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں لاہور کے بازار میں میں عربی تحریر والی قمیض پہننے پرخاتون پر تشدد کیا گیا ،لباس پر عربی میں حلوہ لکھا گیا تھا جس کا مطلب خوبصورتی ہے ،
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی ابوظہبی میں انور گرگاش ڈپلومیٹک اکیڈمی میں سفارت کار اور واشنگٹن ڈی سی میں ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ہیں، ایک حالیہ مضمون میں انہوں نے اچھرا واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں فوراً اپنی بیوی اور بیٹیوں کا خیال آیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسا لباس پہنتے ہیں جس میں عربی خطاطی کے ڈیزائن ہوتے ہیں، میں اپنے کاروبار کو پاکستان تک بڑھانے بارے سوچ رہا تھا تا ہم کیا میں اس طرح کے حملوں کا خطرہ دیکھ کر اپنی بیوی یا بیٹیوں کے ساتھ لاہور یا کراچی رہ سکتا ہوں؟ (14 مارچ 2024)
بدقسمتی سے عمران خان ان کی نبض کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے عوام کے سامنے جذبات کو بھڑکانے کے لیے بارہا مذہبی بیانیے کو سامنے لے کر آیا، اس نے اپنی سیاسی جدوجہد کا موازنہ خلفائے راشدین سے کیا تھا۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ عمران خان اکثر متضاد بیانات دیتے رہتے ہیں۔ جب کہ اس کے اپنے بچے مغربی ثقافت میں پرتعیش طرز زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس نے خود اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ بھی ادھر گزارا ہے، اور اب وہ اسلامی سماجی، ثقافتی اور سیاسی اقدار کی وکالت کرتا ہے، بدقسمتی سے، وہ سیاسی فائدے کے لیے مذہبی جذبات کا استحصال کرتا ہے، مسلم ریاستوں میں مثبت شراکت کی کمی کے باوجود خود کو مسلم دنیا میں ایک رہنما کے طور پر کھڑا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مذہبی اور سیاسی تقسیم پر کھیل کر اس نے ہمارے معاشرے کو پولرائز کر دیا ہے۔
ہم سب کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اپنے سیاسی فائدے کے لیے ہم اپنے معاشرے کے تانے بانے کو کمزور نہیں کر سکتے اور نہ ہی کرنا چاہیے۔ حکومت کو لوگوں کی ضروریات، معاشی ترقی اور ہمارے معاشرے کو ایک مربوط اکائی میں یکجا کرنے کو ترجیح دینی چاہیے۔