طوفان الاقصیٰ اور غزہ میٹرو
از قلم غنی محمود قصوری
گذشتہ سال 7 اکتوبر 2023 سے ابتک حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ جاری ہے جس میں ہر آنے والے دن کیساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، وزارت صحت غزہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے باعث ابتک اس جنگ میں فلسطینی شہداء کی تعداد 31,553 اور زخمیوں کی تعداد 73,546 ہو گئی ہے جن میں 70 فیصد عورتیں اور بچے شامل ہیں جبکہ 23 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں رہائشی عمارتیں،مساجد،سکول، ہسپتال و دیگر املاک مکمل تباہ ہو چکی ہیں،حماس نے اس جنگ کو طوفان الاقصیٰ کا نام دیا ہے
اسرائیل اور حماس کے مابین یہ جنگ کوئی پہلی نہیں اس سے پہلے بھی یہ جنگیں ہو چکی ہیں مگر موجودہ جنگ سب سے زیادہ خطرناک ترین ہے
حماس کا مقصد اسرائیل کا جدید ترین دفاعی نظام آئرن ڈوم تباہ کرنا ہے جو کہ راکٹ شکن دفاعی نظام ہے جو اپنی 300 کلومیٹر کی حدود میں آنے والے مخالف راکٹ وغیرہ کو فضاء میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
اسے اسرائیلی Advance Defance System Rafael نے 210 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار کیا جس کا وزن 90 کلوگرام اور اس کی لمبائی 3 میٹر ہے،اس وقت تقریباً 6 ممالک آئرن ڈوم استعمال کر رہے ہیں مگر اسرائیل میں نصب آئرن ڈوم دنیا کا جدید ترین مانا جاتا ہے کیونکہ یہ 20 سے 45 سیکنڈ تک ریڈار کے ذریعے اپنے مخالف ہدف کو تلاش کرکے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
ویسے تو اس نظام کو 2005 میں اسرائیل میں تیار کیا گیا تاہم اسے 2007 میں نصب کیا گیا جس کے خاطر خواہ نتائج نا نکلے تو 2012 میں امریکہ کی مدد سے اسے اپ گریڈ کرکے کامیاب ترین قرار دیا گیا ،اسرائیلی ٹیکنالوجی میں آئرن ڈوم کلیدی اہمیت رکھتا ہے
جس طرح اسرائیل کے دفاع میں آئرن ڈوم کلیدی اہمیت رکھتا ہے بالکل اسی طرح حماس کی سرنگیں حماس کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہیں اور اسرائیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی سرنگیں ہیں
اسرائیل کا مقصد ان سرنگوں کو تباہ کرنا ہے اور اسرائیل ان سرنگوں کو غزہ میٹرو کا نام دیتا ہے، 5 ماہ سے زیادہ کی اس جنگ میں اسرائیل ان سرنگوں کا 20 فیصد بھی تباہ نہیں کر سکا،اسرائیلی فوج نے ان سرنگوں کو تباہ کرنے کے لئے بے پناہ فضائی بمباری کی،ٹینکوں کا استعمال کیا اور جدید ترین ڈرونز کے ذریعے ان سرنگوں کا کھوج لگانے کوشش کی اور کچھ پکڑی جانے والی سرنگوں میں سمندر کا پانی داخل کیا تاہم ناکام رہا،
حماس نے اسرائیلی کے 132 سے زیادہ قیدی انہی سرنگوں میں رکھے ہوئے ہیں جن میں سے 28 ہلاک ہو چکے ہیں
امریکی فوجی اکیڈمی کے مطابق اس وقت غزہ میں 500 کلومیٹر تک لمبی 1300 جدید ترین سرنگیں موجود ہیں جو کہ 30 میٹر گہری ہیں اور ان کے نیچے مکانات،مساجد اور حماس کے ٹریننگ کیمپوں کے علاوہ اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی موجود ہیں،یہ سرنگیں اس قدر جدید ہیں کہ فضاء سے ان کی نشاندہی ممکن نہیں ان کی نشاندہی کیلئے پورے غزہ کی تلاشی ضروری ہے،ان میں سے بیشتر سرنگیں اسرائیل کے اندر تک موجود ہیں ،اگر ہم ان سرنگوں کی جدت کا اندازہ لگائیں تو ذہن نشین کر لیں کہ لندن میں انڈر گراؤنڈ ٹرین سسٹم 400 کلومیٹر لمبا ہے مگر یہ سرنگیں 500 کلومیٹر تک لمبی ہیں
ایک طرف دنیا کا جدید ترین ایٹمی ملک اسرائیل ہے تو دوسری طرف اس کے مدمقابل 35 سے 40 ہزار حماس کے تربیت یافتہ افراد جن کے بارے اسرائیل نے دعوی کیا ہے کہ 10 ہزار سے زائد حماس جنگجو شہید ہو چکے ہیں مگر دوسری طرف عسکری تجزیہ نگار پوچھتے ہیں کہ اگر اتنی تعداد میں حماس کے مجاہدین شہید ہو چکے ہیں تو ابتک اسرائیل خاطر خواہ نتائج کیوں نہیں حاصل کر سکا اور ابتک 1200 سے زائد اسرائیلی کیوں مر چکے ہیں؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب اسرائیلی ڈیفینس فورسز کے پاس نہیں
گمان ہوتا ہے کہ یہ جنگ لمبا عرصہ چلے گی کیونکہ دونوں طرف ٹیکنالوجی میں جدت ہے، ہاں اسرائیل کے پاس فوجی قوت اور اسلحہ زیادہ ہے مگر اس کے مدمقابل حماس کے مجاہدین بہت کم ہیں مگر حماس کے مجاہدین وہ ہیں جو 2014 کی حماس اسرائیل جنگ میں 18 سال سے کم عمر کے نوجوان تھے اور جنہوں نے اپنے خاندانوں کو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں بہت برے طریقے سے شہید ہوتے دیکھا اور اب وہ انتقام کیلئے ہر حد تک جاسکتے ہیں