اسلام آباد ہائیکورٹ،عدالتی احکامات کے باوجود بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کرانے پر توہین عدالت درخواستوں پر سماعت ہوئی
سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے توہینِ عدالت کی درخواستوں پر تحریری جواب جمع کروا دیا،اسلام آباد ہائیکورٹ نےسپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ، عدالت نے کہا کہ آپ نے عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے کے اپنے اقدام کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے، سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے غیرمشروط معافی مانگ لی،جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ آئندہ سماعت پر اس متعلق عدالت کو مطمئن کریں،
اسلام آباد ہائیکورٹ نے 26 مارچ کو درخواست گزاروں کی ملاقات کرانے کا حکم دے دیا،اسلام آباد ہائیکورٹ نےعلامہ ناصر عباس کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرانے کا حکم دے دیا، عدالت نے شہریار آفریدی، شاندانہ گلزار اور فردوس شمیم نقوی کی بھی ملاقات کرانے کا حکم جاری کر دیا
واضح رہے کہ عمران خان اڈیالہ جیل میں ہیں اور انہیں تین مقدمات میں سزا ہو چکی ہے، جبکہ کئی مقدمات ابھی چل رہے ہیں، عمران خان کو توشہ خانہ، سائفر کیس، دوران عدت نکاح کیس میں سزا ہوئی ہے، القادر ٹرسٹ کیس ،نومئی کے مقدمات ابھی زیر سماعت ہیں،
سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے عمران خان سے آن لائن ملاقات کرانے سے انکار کر دیا
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ، بانی پی ٹی آئی سے وکلاء کی ملاقات کی درخواست پر سماعت ہوئی،سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے بانی پی ٹی آئی کی آن لائن ملاقات کرانے سے انکار کر دیا، عدالت میں دیئے گئے جواب میں کہا کہ جیل رولز میں آن لائن ملاقات کی اجازت نہیں، ملاقات نہیں کروا سکتے، عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کوٹ لکھپت جیل میں آن لائن ملاقاتوں کا اعلان کیا، وزیراعلیٰ نے تو فخریہ کہا کہ پورے ایشیاء کی پہلی جیل ہے جہاں یہ سہولت دے رہے ہیں، جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے استفسار کیا کہ اگر جیل رولز میں اجازت نہیں تو کوٹ لکھپت جیل میں غیرقانونی کام کیسے شروع ہو گیا؟جیل اتھارٹیز اپنے جواب میں یہ کہہ رہی ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا اقدام غیرقانونی ہے؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا جا سکتا، ترمیم کی ضرورت ہے، اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ ہمیں مزید ہدایات لینے کیلئے کچھ وقت دیدیں، عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہدایات لینے کی کوئی ضرورت نہیں، سپریٹنڈنٹ جیل کہہ رہے ہیں کہ رولز اجازت نہیں دیتے، ایک ہی حکومت نے ایک جیل میں ترمیم کے بغیر آن لائن میٹنگ سے منع کیا جبکہ دوسری میں خود فخریہ وہی کیا، عدالتی معاون زنیب جنجوعہ نے کہا کہ سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کا موقف پنجاب حکومت سے متضاد نہیں ہونا چاہیے وہ انکے ماتحت افسر ہیں،
جہاں سے جیل حکام کو آرڈرز آ رہے ہیں وہاں سے آنا رک جائیگے تو یہ سب ختم ہو جائے گا،عدالت
وکیل شیر افضل مروت عدالت میں پیش ہوئے ہوئے اور کہا کہ کوٹ لکھپت میں فخریہ اعلان کیا لیکن یہاں عدالت سے چھپن چھپائی کھیل رہے ہیں، جسٹس سردار اعجازاسحاق خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس نکتے کو جلد ہی طے کرنا ہے زیادہ وقت نہیں ہے، سوال اب یہ ہے کہ جیل ملاقات میں سیاسی گفتگو ہو سکتی ہے یا نہیں،اگر ہم نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیاسی گفتگو ہو سکتی ہے تو پھر ترمیم کرنی ہو گی،یہ معاملہ حل ہونے دیں، آن لائن میٹنگ کو اب روکا نہیں جا سکتا، اگر یہ کہیں گے کہ آن لائن نہیں کروا سکتے تو پوری دنیا میں مذاق اڑے گا، شیر افضل مروت نے کہا کہ ہمیں اڈیالہ جیل سے ڈیڑھ کلو میٹر پہلے روک کر پیدل بھیجا جاتا ہے،جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ بھی یہاں بیٹھ کر ڈرامہ ہی کر رہے ہیں، سب کو پتہ ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، جہاں سے جیل حکام کو آرڈرز آ رہے ہیں وہاں سے آنا رک جائیگے تو یہ سب ختم ہو جائے گا،ملک میں دو سو سینئر سول افسر غیرقانونی حکم ماننے سے انکار کر دیں تو نظام ٹھیک ہو جائے گا،دو سو افسر ایک ساتھ یہ کر لیں تو یہ سلسلہ رک جائے گا،وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ عدالت اگر دو سو سول سرونٹس کو جیل بھیج دے تو بھی بہتری ہو سکتی ہے،جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ جب تک دو تین سو ایک نظریے کیلئے قربانی نہیں دینگے یہ ایسے ہی رہے گا،ہم کیوں یہاں بیٹھ کر دکھاوا کر رہے ہیں؟ وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ جو طاقت قلم میں ہے وہ بندوق میں بھی نہیں ہے،ایک آرڈر سے دیکھیں ڈی سی اسلام آباد کا کیا حال ہوا،








