برصغیر کی خوب صورت اداکارہ اور شاعرہ مینا کماری

مینا کماری نے 1952 میں فلمساز کمال امروہوی سے اس کی دوسری بیوی کی حیثیت سے شادی کی
0
129
showbiz

راہ دیکھا کرے گا صدیوں تک
چھوڑ جائیں گے یہ جہاں تنہا

مینا کماری
31 مارچ 1972: تاریخ وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر کی خوب صورت اداکارہ اور شاعرہ مینا کماری یکم اگست 1933 میں بمبئی کے ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی ان کے والد کا نام علی بخش اور ماں کا نام اقبال بانو تھا۔ ماں نے اس کا نام ماہ جبین بانو رکھا جبکہ گھر میں اسے منجو کے نام سے پکارا جاتا تھا اور فلمی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد وہ فلمی نام مینا کماری کے نام سے مشھور ہوئی۔ مینا کماری جتنی خوب صورت تھی زندگی میں اسے اتنے ہی دکھ اور غم ملے۔ اس کے پیدا ہوتے ہی اس کے باپ علی بخش نے ایک یتیم خانہ میں چھوڑدیا اس کی وجہ یہ تھی کہ علی بخش کو پہلے دو بیٹیاں تھیں جن کے بعد اسے بیٹے کی شدید خواہش ہوئی لیکن تیسری بیٹی پیدا ہوئی تو اس نے غصے کے طور پر اپنی بیٹی کو یتیم خانہ میں داخل کرا دیا مگر اپنی بیوی کے رونے اور ممتا کی تڑپنے کی وجہ سے کچھ روز بعد بیٹی کو اپنے گھر واپس لے آیا۔ ماہ جبیں نے چار سال کی عمر میں چائلڈ اسٹار کے طور پر اداکاری کا آغاز کیا جس میں اسے بے بی مینا کا نام دیا گیا وہ جب سن بلوغت کو پہنچی تو اسے فلمساز وجے بھٹ نے اپنی فلم ”بچوں کا کھیل“میں مینا کماری کا نام دیا۔ مینا کماری فلمی دنیا ایک عظیم اداکارہ کا مقام حاصل کر لیا وہ ہندستان کی پہلی اداکارہ تھی جس کو فلم بیجوباورا میں بہترین اداکاری کی وجہ سے فلم فیئرایوارڈ دیا گیا۔ جبکہ مجموعی طور پر اس نے چار فلم فیئر ایوارڈز حاصل کیے۔ مینا کماری کی مشہور فلموں میں بیجو باورا، صاحب بیوی غلام، یہودی، دل ایک مندر، پرینتیا، کاجل ، کوہ نور ، دل اپنا اور پریت پرائی ، آرتی، میں چپ رہوں گی اور آزاد شامل ہیں ۔

مینا کماری نے 1952 میں فلمساز کمال امروہوی سے اس کی دوسری بیوی کی حیثیت سے شادی کی ۔ 1964 میں کمال امروہوی کے درمیان شدید اختلافات کے باعث علیحدگی ہو گئی ۔ مینا کماری کو بچپن سے ہی شاعری سے دلچسپی تھی لیکن زمانے کے دکھ درد کے باعث خود بھی شاعرہ بن گئی اور ناز تخلص اختیار کیا مرزا غالب اس کا پسندیدہ شاعر تھا جبکہ شاعری میں وہ گلزار سے مشاورت کرتی تھی۔ اس کی شاعری اس کی زندگی کے دکھ اور غموں کی تفسیر بن گئی تھی جبکہ غمگین اداکاری ک وجہ سے اسے ملکہ جذبات کے خطاب سے نوازا گیا۔ 31 مارچ 1972 میں تنہائی کے عالم میں اس کی وفات ہوئی کیوں کہ اس کو اولاد نہیں تھی ۔

مینا کماریناز کی شاعری سے انتخاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے
مرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے

نمی سی آنکھ میں اور ہونٹ بھی بھیگے ہوئے سے ہیں
یہ بھیگا پن ہی دیکھو مسکراہٹ ہوتی جاتی ہے

تیرے قدموں کی آہٹ کو یہ دل ہے ڈھونڈتا ہر دم
ہر اک آواز پر اک تھرتھراہٹ ہوتی جاتی ہے

یہ کیسی یاس ہے رونے کی بھی اور مسکرانے کی
یہ کیسا درد ہے کہ جھنجھناہٹ ہوتی جاتی ہے

کبھی تو خوبصورت اپنی ہی آنکھوں میں ایسے تھے
کسی غم خانہ سے گویا محبت ہوتی جاتی ہے

خود ہی کو تیز ناخونوں سے ہائے نوچتے ہیں اب
ہمیں اللہ خود سے کیسی الفت ہوتی جاتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا
ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہوگا

ذرے ذرے پہ جڑے ہوں گے کنوارے سجدے
ایک اک بت کو خدا اس نے بنایا ہوگا

پیاس جلتے ہوئے کانٹوں کی بجھائی ہوگی
رستے پانی کو ہتھیلی پہ سجایا ہوگا

مل گیا ہوگا اگر کوئی سنہری پتھر
اپنا ٹوٹا ہوا دل یاد تو آیا ہوگا

خون کے چھینٹے کہیں پوچھ نہ لیں راہوں سے
کس نے ویرانے کو گل زار بنایا ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔

چاند تنہا ہے آسماں تنہا
دل ملا ہے کہاں کہاں تنہا

راہ دیکھا کرے گا صدیوں تک
چھوڑ جائیں گے یہ جہاں تنہا

Leave a reply