باغی ٹی وی انویسٹی گیشن سیل، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان احمد بزدار کے خلاف بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے لے آیا۔ سی ایم پنجاب کی اہلیت خطرے میں پڑگئی۔

0
69

لاہور۔شہباز اکمل جندران

 

 

باغی ٹی وی انویسٹی گیشن سیل، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان احمد بزدار کے خلاف بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے لے آیا۔ سی ایم پنجاب کی اہلیت خطرے میں پڑگئی۔

 

پی ٹی آئی کی قیادت وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ایمان دار اور شریف النفس قرار دیتی ہے۔لیکن ان کے اپنے ہی جمع کروائے جانے والے کاغذات نامزدگی کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔

باغی ٹی وی کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان احمد بزدار نے 25جولائی 2018کے عام انتخابات سے قبل ریٹرننگ افسر کو جو کاغذات نامزدگی جمع کروائے ان میں آٹھ بڑے تضاد پائے جاتے ہیں۔

پہلا تضاد۔
عثمان احمد بزدار نے کاغذات نامزدگی کے پہلے ہی صفحے پر اپنے جملہ اثاثہ جات کی مالیت اڑھائی کروڑ روپے تحریر کی۔جبکہ انہی کاغذات نامزدگی کے ہمراہ اشٹام پیپر پر لف بیان حلفی پر اپنے کل اثاثہ جات کی مالیت محض 7لاکھ 61ہزار 893روپے تحریر کی۔

دوسرا تضاد۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپنے کاغذات نامزدگی میں 258کنال یا 32یاایکڑ زرعی اراضی، زرعی مقاصد کے لیے دو بیلارس اور ایک میسی ٹریکٹر تحریر کیا۔اور کاغذات نامزدگی کے ہمراہ لف بیان حلفی کے کالم(K) میں اپنا ذریعہ آمدن زراعت بیان کیا لیکن اسی بیان حلفی کے کالم نمبر (M)میں بیان کیا کہ ان کے پاس زرعی اراضی نہیں ہے۔

تیسراتضاد۔
عثمان بزدار نے خود کاغذات نامزدگی میں زرعی اراضی بیان کرنے کے بعد بیان حلفی میں زرعی اراضی کے وجود سے ہی انکار کردیا۔

چوتھا تضاد۔
عثمان بزدار نے 258کنال زرعی اراضی رکھنے اور زراعت سے پیسہ کمانے کے باوجود زرعی کبھی بھی زرعی انکم ٹیکس ادا نہ کیا۔

پانچواں تضاد۔
عثمان بزدار نے کاغذات نامزدگی کے ہمراہ لف بیان حلفی میں 2017کے دوران اپنی کل آمدن 4لاکھ 68ہزار 500روپے بیان کی لیکن ایف بی آر کی طرف سے الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسر کو جمع کروائی جانے والی دستاویزات کے مطابق 2017میں عثمان بزدار کی مجموعی آمدن 3لاکھ 88ہزار900روپے تھی۔

چھٹا تضاد۔
عثمان بزدار نے کاغذات نامزدگی میں جو موبائل نمبر خود سے منصوب کیا ہے۔ وہ سم کسی عبدالغفار کے نام رجسٹرڈ ہے۔

ساتواں تضاد۔
عثمان بزدار نے اپنے کاغذات نامزدگی اور بعد ازاں الیکشن کمیشن کے روبرو اپنے اثاثہ جات کے سالانہ گوشواروں کے آخر میں بیان کیا کہ انہوں نے ایک پلاٹ خرید کر بیچ ڈالا۔یہ پلاٹ کب خریدا۔کتنے میں خریدا۔اور کن پیسوں سے خریدا رقم کہاں سے آئی۔کون سے پراپرٹی یا جائیداد بیچ کر پلاٹ خریدا اس کا ذکر نہیں ہے۔اسی طرح خرید کردہ پلاٹ کتنے میں بیچا۔کب بیچا اور فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن کہاں استعمال یا ڈیپازٹ کی۔نیز 2017کے اپنے کاغذات نامزدگی اور 2018کے اپنے اثاثہ جات کے سالانہ گوشواروں میں پلاٹ خرید کر بیچنے کا ذکر ہے یہ پلاٹ الگ الگ ہیں یا ایک ہی پلاٹ کی بات کی گئی ہے۔اگر الگ الگ پلاٹ ہیں تو 2018میں پلاٹ کس رقم سے خریدا گیا۔وہ رقم کہاں سے آئی۔اور اگر ایک ہی پلاٹ کا ذکر ہے تو 2017کے کاغذات نامزدگی میں بیان کیا جانے والا پلاٹ 2018کے اثاثہ جات کے گوشواروں میں کیسے بیان کیا جاسکتا ہے۔

آٹھواں تضاد۔
عثمان بزدار نے اپنے کاغذات نامزدگی میں یوبی ایل تونسہ کے اکاونٹ میں محض 5ہزار 9سو93روپے کی رقم بیان کی ہے۔لیکن الیکشن کمیشن کے روبرو 2018کے اپنے اثاثہ جات کے سالانہ گوشواروں میں تونسہ یو بی ایل کے اکاونٹ میں 15لاکھ 90ہزار روپے کی رقم بیان کی ہے یہ رقم کہاں سے آئی ہے بیان نہیں کیا گیا کیونکہ ان کے دیگر اکاونٹس کی رقم کم ہوئی ہے نہ ہی انہوں نے کوئی جائیداد بیچی ہے۔جبکہ بینک آف پنجاب میں ان کی اہلیہ کے اکاونٹ کی رقم میں بھی اضافہ ہی ہوا ہے کمی واقع نہیں ہوئی۔

 

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کاغذات نامزدگی کے مطابق عثمان بزدار ایم اے ایل ایل بی اور ایڈووکیٹ ہیں تو کیا ان کے کاغذات نامزدگی کسی دوسرے نے بھرے اور عثمان بزدار نے ان کاغذات میں پائے جانے والے تضادات کو دیکھے بنا ان پر دستخط کئے اور ریٹرننگ افسر کے روبرو جمع کروا دیئے یا ایم اے ایل ایل بی ہونے کے باوجود وہ کاغذات نامزدگی میں پائے جانے والے تضادات کو سمجھ ہی نہیں سکے۔اگر وہ ان تضادات کو سمجھ نہیں پائے تو ان کی اہلیت پر الیکشن سے پہلے ہی سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔اور پی ٹی آئی کی قیادت ایک ایسے شخص کو کیسے صوبے کی باگ ڈور دے سکتی ہے جو اپنا فارم بھی فل نہیں کرسکتا۔

باغی انویسٹی گیشن سیل کی طرف سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے اثاثہ جات اور کاغذات نامزدگی میں پائے جانے والے تضادات خود الیکشن کمیشن اور اس کے پولیٹیکل فنانس ونگ کے لیے چیلنج بن گئے ہیں۔اب بال الیکشن کمیشن کی کورٹ میں ہے اور عوام کی نظریں بھی الیکشن کمیشن پر ہیں۔

Leave a reply