اسلام آباد ہائیکورٹ ،سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے اختیار کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی
الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں کیس زیرسماعت ہونے کے باعث سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کر دی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابی نشان واپسی اور تضادات سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لینے کا اختیار ہے، وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ سپریم کورٹ میں الگ معاملہ زیرسماعت ہے، میری درخواست الگ ہے،
تحریکِ انصاف بطور سیاسی جماعت موجود ہے،الیکشن کمیشن کے وکیل کا عدالت میں اعتراف
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لگ رہا تھا سپریم کورٹ پیر تک کیس نمٹا دے گی لیکن لگتا ہے کچھ وقت اور لگے گا،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آج بھی جوڈیشل کمیشن اجلاس کی وجہ سے ڈیڑھ گھنٹہ سماعت کا کہا گیا ہے،لگتا یہی ہے کہ کل یا پرسوں تک سپریم کورٹ کیس کا فیصلہ کر دے گی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ایک جماعت کا انتخابی نشان نہیں ہے تو کیا وہ بطور سیاسی جماعت ختم ہو جائے گی؟ کیا تحریکِ انصاف بطور سیاسی جماعت الیکشن کمیشن میں اب بھی درج ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جی، تحریکِ انصاف بطور سیاسی جماعت موجود ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایک شخص آزادالیکشن لڑتاہےلیکن کہتاہےکہ اس سیاسی جماعت سےہوں توہوسکتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ میں بتاتا ہوں کہ ہوا کیا تھا،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جو ہوا اسکو چھوڑ دیں میں مفروضوں پر بات نہیں کر رہا، عدالتی سوال کا جواب دیں، پی ٹی آئی بطور جماعت موجود ہے، اُسکے چیئرمین، سیکرٹری وغیرہ ہیں نا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات نہیں کرائے،
وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے اس حوالے سے درخواست دائر کی لیکن الیکشن کمیشن نے خارج کر دی، سلمان راجہ نے درخواست دی کہ انتخابی نشان نہ دیں لیکن پی ٹی آئی کا امیدوار مان لیں،
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے اختیار کے خلاف درخواست پر الیکشن کمیشن سے 5 جولائی تک جواب طلب کر لیا.








