سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں رائے دی ہے کہ جس وقت سابق وزیر اعظم کو پھانسی کی سزا دی گئی اس وقت ملک میں مارشل لا تھا۔آمر کی وفاداری کا حلف اٹھانے والی عدالتیں، عوامی عدالتیں نہیں رہتیں۔تفصیلی تحریری رائے کے مطابق ’پھانسی کے فیصلے کا براہ راست فائدہ ضیا الحق کو ہوا‘، بھٹو کو رہا کردیا جاتا تو وہ ضیا کیخلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلا سکتے تھے۔واضح رہے کہ 6 مارچ 2024 کو سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو صدارتی ریفرنس پر رائے سنائی تھی، تاہم اب عدالت عظمیٰ نے تفصیلی تحریری رائے جاری کردی ہے۔
اس وقت سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو آئین کے مطابق مصنفانہ ٹرائل نہیں ملا اور ان کے خلاف مقدمہ قانون کے مطابق نہیں چلایا گیا۔
بھٹو کیس میں شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کیے۔ کیس میں براہ راست شواہد موجود نہ تھے،اور کیس کو ایک سال تک سماعت کے لیے مقرر ہی نہ کیاگیا۔ کیس میں معصوم شخص کو پھانسی پرچڑھایاگیا، جس کابراہ راست فائدہ جنرل ضیا کو ہوا۔عدالت نے مزید48 صفحات میں رائے دی کہ جس وقت فیصلہ سنایاگیا، اس وقت ملک اور عدالتیں آمر کے غلام تھے۔ ایف آئی نے بھٹو کے کیس کی فائل ملنے سے پہلے ہی تحقیقات کاآغاز کردیا تھا لیکن اگر پولیس پہلے تفتیش مکمل کرچکی ہو تو ایف آئی اے کو تفتیش کا اختیار حاصل نہیں۔ جس وقت کیس چلایاگیا اس ٹائم آئین معطل تھا۔

Shares: