سرکاری بجلی گھر بھی کیپسٹی چارجز سے فائدہ اٹھا رہے ہیں،سابق وزیر تجارت کا انکشاف

0
51
gohar ijaz

سابق نگراں وفاقی وزیر تجارت ڈاکٹر گوہر اعجاز نے پاکستان کے توانائی شعبے میں ایک بڑے مسئلے کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے دستاویزی ثبوت کے ساتھ انکشاف کیا ہے کہ صرف نجی بجلی پیداکنندگان (آئی پی پیز) ہی نہیں، بلکہ سرکاری بجلی گھر بھی اربوں روپے کے کیپسٹی چارجز حاصل کر رہے ہیں۔گوہر اعجاز کے مطابق، سب سے زیادہ 45 فیصد کیپسٹی چارجز خود سرکاری بجلی گھر وصول کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کول پاور پلانٹس اپنی صلاحیت کے صرف 25 فیصد پر کام کرنے کے باوجود مکمل کیپسٹی چارجز، یعنی 692 ارب روپے، وصول کر رہے ہیں۔ اسی طرح، ہوا سے چلنے والے بجلی گھر 50 فیصد سے کم صلاحیت پر کام کرتے ہوئے بھی 175 ارب روپے حاصل کر رہے ہیں۔
سابق وزیر نے مزید بتایا کہ آر ایل این جی پلانٹس بھی اپنی صلاحیت کے 50 فیصد سے کم پر کام کرنے کے باوجود 180 ارب روپے کما رہے ہیں۔ انہوں نے اس صورتحال کو "دھوکہ دہی کا فریم ورک” قرار دیا، جو صنعتوں، گھریلو اور تجارتی صارفین کے لیے ناقابل برداشت ہے۔گوہر اعجاز نے موجودہ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کیپسٹی چارجز والے معاہدوں کی حفاظت کرنے کی بجائے ان پر نظرِ ثانی کریں۔ انہوں نے زور دیا کہ آئی پی پیز معاہدوں پر نظرثانی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
سابق وزیر نے ایک اہم سوال بھی اٹھایا کہ بند بجلی گھروں کو ہر سال 2 ہزار ارب روپے دینے کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوال پاکستان کی توانائی پالیسی پر سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔یہ انکشافات پاکستان کے توانائی شعبے میں موجود مسائل کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کا براہ راست اثر عام شہریوں پر پڑتا ہے، جنہیں بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور توانائی شعبے میں شفافیت لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ بصورت دیگر، ملک کی معاشی ترقی اور عوام کی بہبود پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

Leave a reply