پرتشدد مظاہرے،بنگلہ دیش کی حکومت کوکیا کرنا چاہئے؟

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کی بحالی کے خلاف مظاہرے پرتشددہوئے اور پھیل گئے، کوٹہ سسٹم، جو پاکستان سے 1971 کی جنگ آزادی میں لڑنے والوں کے بچوں کو فائدہ دیتا ہے، تنازعہ کا باعث رہا ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے،یہ مظاہرے بدقسمتی سے جان لیوا ہو گئے، جس کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں۔

بڑھتے ہوئے تشدد کے جواب میں، بنگلہ دیشی حکومت نے ہفتہ سے شروع ہونے والے ملک گیر کرفیو کا اعلان کیا ہے اور 170 ملین آبادی والے ملک کو مؤثر طریقے سے الگ تھلگ کرتے ہوئے ٹیلی کمیونیکیشن بلیک آؤٹ نافذ کر دیا ہے۔ دارالحکومت ڈھاکہ میں عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جہاں طلباء اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں نے آتشزدگی اور نمایاں بدامنی کو جنم دیا ہے۔

حکومت کی جانب سے تمام یونیورسٹیوں کو بند کرنے کے فیصلے سے، جو کہ کوٹہ مخالف مظاہروں کا مرکز بنی ہوئی ہیں،طلباکو احتجاج سے نہیں رو ک سکیں، طلبا کیمپس پر مسلسل قبضہ کر رہے ہیں۔ پولیس نے مظاہرین پر پولیس اور سرکاری عمارتوں پر حملوں سمیت املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔مظاہرین کے حملوں سےجن املاک کو نقصان پہنچا ان میں ریاستی نشریاتی ادارے بنگلہ دیش ٹیلی ویژن کا ڈھاکہ ہیڈکوارٹر بھی شامل ہے ،

یہ صورتحال بنگلہ دیشی حکومت کو اپنے شہریوں کی شکایات کو دور کرنے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ذمہ داری لینے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ احتساب بہت ضروری ہے، اور حکومت کو حالات کو سنبھالنے میں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ ریکارڈ شدہ ہلاکتوں کی تعداد 130 سے بڑھ چکی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کشیدگی میں کمی کے لئے کردار ادا کریں اور طاقت کا سہارا لینے سے پہلے تمام غیر متشدد اقدامات کو ختم کرنا چاہیے۔ اختلاف رائے کو دبانے سے صرف اختلاف بڑھتا ہے۔ مظاہرین کے ساتھ بات چیت کرنا، ان کے تحفظات کو سمجھنا، اور ضروری قانون سازی میں تبدیلیاں کرنا ہی آگے بڑھنے کا سب سے احسن راستہ ہے۔

Shares: