آئیسکو کی صارفین سے غیرمنصفانہ بل وصولی: ایف آئی اے کی رپورٹ میں انکشافات

0
39
IESCO

اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) کی جانب سے پروٹیکٹڈ صارفین پر اضافی یونٹ ڈال کر نان پروٹیکٹڈ بل وصول کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ وزارت داخلہ کی درخواست پر ایف آئی اے نے تفصیلی رپورٹ پیش کر دی ہے، جس میں صارفین کو زیادہ بل بھیجنے کے مختلف طریقے ظاہر کیے گئے ہیں.ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق، آئیسکو نے پروٹیکٹڈ صارفین پر اضافی یونٹ ڈال کر نان پروٹیکٹڈ بل وصول کیے۔ اس عمل کے ذریعے صارفین کو زیادہ بلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ آئیسکو تاخیر کے ساتھ ریڈنگ کر کے صارفین کو زیادہ بل بھیجنے میں ملوث رہا۔ آئیسکو نے وقت سے پہلے ریڈنگ کر کے صارفین کو اوسط یونٹ ڈالنے کا طریقہ بھی اپنایا۔
آئیسکو نے بند میٹرز پر بھی 2 سے 3 یونٹ روزانہ کی اوسط شامل کی، جس سے اپریل میں 1279 صارفین متاثر ہوئے۔ ایف آئی اے نے آئیسکو کے پرو ریٹا سسٹم کو بھی زائد وصولی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، جس کے باعث 13,324 صارفین کو زائد بل بھیجے گئے۔ مئی 2024 میں 2447 اور جون میں 8725 صارفین متاثر ہوئے۔
ایک ماہ میں 17 لاکھ سے زائد پروٹیکٹڈ اور لائف صارفین نے 1,71,851 یونٹ استعمال کیے، جبکہ 31 لاکھ 79 ہزار 120 نان پروٹیکٹڈ صارفین نے 6,19,753 یونٹ استعمال کیے۔ آئیسکو بلوں پر میٹر ریڈنگ اور تاریخ کی عدم موجودگی بھی سامنے آئی، جس سے صارفین کو پروٹیکٹڈ اور نان پروٹیکٹڈ صارفین کے فرق کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی جاتی۔ایف آئی اے انکوائری ٹیم نے سفارش کی ہے کہ آئیسکو کی ایوریج سسٹم سے متاثر ہونے والے صارفین کو دوبارہ پروٹیکٹڈ کیٹگری میں شامل کیا جائے۔ رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ 2 سے 3 دن کی ایوریج ڈال کر صارفین کو نان پروٹیکٹڈ کرنا زیادتی ہے۔ ایف آئی اے نے گزشتہ تین ماہ میں 15,46,846 صارفین کو ریلیف دینے کی سفارش کی، جس سے صارفین کو 51,22,525 یونٹ کا فائدہ پہنچے گا۔
ایف آئی اے نے آئیسکو کے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کی نااہلی اور غفلت پر کارروائی کی سفارش بھی کی ہے، تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح آئیسکو کی غلط کاریوں نے لاکھوں صارفین کو متاثر کیا اور ان پر غیر ضروری مالی بوجھ ڈالا۔ ایف آئی اے کی سفارشات پر عمل درآمد سے امید کی جا رہی ہے کہ صارفین کو ریلیف ملے گا اور بجلی کی بلنگ کے نظام میں شفافیت آئے گی۔

Leave a reply