پاکستان میں تالی کون مارے گا۔۔؟

پاکستان میں تالی کون مارے گا۔۔؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

کہتے ہیں کہ افغانستان کے صدر سردار داؤد کو اطلاع ملی کہ کابل میں تانگے کا کرایہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ سردار داؤد نے فورا عام لباس پہنا اور بھیس بدل کر ایک کوچوان کے پاس پہنچ کر پوچھا محترم، پل چرخی (افغانستان کے ایک مشہور علاقے کا نام ہے) تک کا کتنا کرایہ لو گے؟کوچوان نے سردار داؤد کو پہچانے بغیر جواب دیا : میں سرکاری نرخ پر کام نہیں کرتا۔صدر داؤد خان نے کہا: 20؟اس پرکوچوان نے کہا اور اوپر جاؤ۔صدرداؤد خان: 25؟،کوچوان: اور اوپر جاؤ۔صدرداؤد خان نے کہا 30؟توکوچوان نے کہا اور اوپر جاؤ۔صدرداؤدخان نے کہا 35؟جس پرکوچوان راضی ہوگیا اور کہا مارو تالی۔
صدرداؤد خان تانگے پر سوار ہو گیا، تانگے والے نے داؤد خان کی طرف دیکھا اور پوچھا : فوجی ہو؟داؤد خان نے جواب اوپر جاؤ۔کوچوان بولا اشتہاری ہو؟داؤد خان نے کہا اور اوپر جاؤ۔کوچوان بولا جنرل ہو؟داؤد خان نے جواب میں کہا اور اوپر جاؤ۔کوچوان پھربولامارشل ہو؟داؤدخان نے پھرکہا اوپر جاؤ۔کوچوان نے حیرت سے پوچھاکہ کہیں داؤد خان تو نہیں ہو؟داؤد خان بولامارو تالی۔کوچوان کا رنگ اڑ گیا۔کوچوان نے داؤد خان سے کہا مجھے جیل بھیجو گے؟داؤد خان نے اسی طرح کوچوان کوجواب دیااور اوپر جاؤ۔کوچوان نےپھرکہاکیا جلا وطن کرو گے؟داؤد خان نے کہا اور اوپر جاؤ۔کوچوان ڈرے سہمے ہوئے لہجے میں بولا پھانسی پر چڑھاؤ گے؟ توداؤد خان نے کہا مارو تالی۔

اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف خبر کے مطابق راولپنڈی میں واسا کے واٹر لیول گیج اسٹیشن پر چوری کی انوکھی واردت سامنے آگئی ، چوروں نے برساتی نالوں میں سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والاسسٹم چوری کر لیا ،نامعلوم چوروں نے واٹر لیول گیج اسٹیشن کے کنڈے تیز دھار آلے سے کاٹ دیے، سیلاب او ربارش کی صورتحال بتانے والا یہ سسٹم جاپان نے دیا تھا۔سسٹم چوری کے بعد سیلاب و بارش کی پیشگی اطلاع کا نظام مکمل مفلوج ہوگیا، چور سسٹم کی سولر پلیٹس، ہیوی بیٹریاں ،قیمتی کمپیوٹرز اور ڈیوائسز بھی ساتھ لے گئے۔ چوری ہونے والا سسٹم جدید خود کار سیلاب کی اطلاع دینے والا نظام تھا۔کلوز سرکٹ کیمرے کے حوالے سے بھی فوٹیج سامنے نہ آسکی، سیلاب بارش کی صورتحال کا یہ سسٹم گزشتہ 15 سال سے بہترین انداز سے کام کررہا تھا۔دوسری جانب ڈپٹی کمشنر اور کمشنر نے بھی اس بڑی چوری کے حوالے سے رپورٹس طلب کی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتنا بڑا سسٹم کیسے چوری ہوگیا ،پاکستان میں عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے جب کسی معاملے کودبانا ہویا دفن کرنا ہوتو اس کی کمیٹیاں بنادی جاتی ہیں یاپھر نوٹس لیکر رپورٹ طلب کی جاتی ہے ،اس طرح چاہے جتنی بڑی چوری ہویاکرپشن کی گئی ہو رپورٹ دررپورٹ کی فائلوں میں گم کردی جاتی ہیں ،پاکستان میں ہے کوئی مائی کالال جو اس انوکھی چوری پر تالی بجائے..؟

ایک اور خبرکے مطابق سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ زیر التوا مقدمات 59 ہزار سے تجاوز کر گئے، 15 جولائی تک زیر التوا مقدمات کی تعداد 59064 تک پہنچ گئی، یکم سے 15 جولائی تک 1206 مقدمات دائر ہوئے لیکن صرف 481 مقدمات نمٹائے جا سکے۔گزشتہ پندرہ روز کے دوران انسانی حقوق کے کسی کیس کا فیصلہ نہیں ہوسکا، ہائیکورٹس کے فیصلوں کے خلاف 32 ہزار سے زائد اپیلیں قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کی منتظر ہیں، زیر التوا فوجداری اپیلوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر گئی،جیلوں میں موجود افراد کی اپیلوں کی تعداد 3295 تک پہنچ گئی۔سپریم کورٹ آف پاکستان اور صوبائی ہائی کورٹس کی موسم گرما کی چھٹیوں کے نوٹیفکیشن جاری ہو چکے ہیں، جس کے مطابق عدالت عظمی میں تعطیلات 15 جولائی سے شروع ہوئیں،سکولوں کے بچوں کی طرح ججوں کو موسم گرما کی چھٹیاں جو انگریز دور کی روایت ہے،انگریزتوچلے گئے لیکن ان کی یہ روایت اسی آن بان اور شان کے ساتھ آج بھی قائم ہے ،اس پر کون تالی بجائے گا؟

ایک اور اہم خبرجسے تمام قومی اخبارات نے شائع کیا اور نیوزچینل نے نشرکیا وہ یہ ہے کہ سابق نگران وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے انکشاف کیا ہے کہ 4 پاور پلانٹس بجلی پیدا کیے بغیر ہزار کروڑ روپے ماہانہ لے رہے ہیں اور آئی پی پیز کو ماہانہ 150 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔گوہر اعجاز نے آئی پی پیز کو کپیسٹی چارجز کی مد میں ہونے والی ادائیگیوں کا ڈیٹا شیئر کرتے ہوئے بیان میں کہا کہ مختلف آئی پی پیز کو جنوری 2024 سے مارچ تک 150 ارب ادا کیے گئے۔اِدھرایک سوال پیداہوتا ہے جب گوہر اعجازوفاقی وزیرتھے اور سیاہ سفید کے مالک بنے ہوئے تھے تو اس وقت انہوں نے ان آئی پی پیز کیخلاف آواز کیوں نہ اٹھائی اور اس وقت جب وہ کچھ کرسکتے تھے تو تالی کیوں نہ بجائی؟

ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے پاکستان میں ایک ایسا شعبہ بھی موجود ہے جس نے 32 سال میں وطن عزیز کو موت کے دہانے پر پہنچا دیا، وہ ہیں آئی پی پیز بجلی پیدا کرنے والے 90 پرائیویٹ ادارے، ہم ان 90کمپنیوں سے کئے معاہدوں پر بات نہیں کریں گے کہ کیسے اور کن شرائط پر انہیں پاکستان کی شہہ رگ پر بٹھادیا گیا ؟ لیکن آپ شاید یہ نہیں جانتے کہ ان آئی پی پیزکمپنیوں کے اصل مالک کون ہیں؟ 68فیصدکمپنیاں تو حکمرانوں (شریف ، زرداری، اسٹبلشمنٹ)کی ملکیت ہیں ان کے علاوہ 8 فیصد پیپلز پارٹی رہنما 10 فیصد اسٹبلشمنٹ، 8 فیصد چین کے سرمایہ کا اور7 فیصدقطری عرب اور7 فیصد پاکستانی سرمایہ دارشامل ہیں ۔اب عوام سے ایک سوال ہے جب 68فیصدآئی پی پیزکمپنیوں کے تین مالک شریف ، زرداری، اسٹبلشمنٹ ہوں ایسا کون ہے مائی کا لال جو ان آئی پی پیز کمپنیوں کے خلاف تالی بجاسکے ،پاکستان ایسا ملک جہاں اگر کسی نے تالی بجانے کی کوشش کی تو اسے نشان عبرت بنادیا گیا ،اس لئے یہاں پاکستان میں تالی بجانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور پاکستان کی سرزمین میں ایسے تالی بجانے والے حکمران ماؤں نے پیدا ہی نہیں کئے جوعوام کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے باہرنکلیں،
لیکن تاریخ اسلام میں ایک ایسا حکمران بھی آیا تھا جس کی 24لاکھ مربع میل پر حکومت تھی جوراتوں کو اٹھ اٹھ کرپہرادیتے تھے اور لوگوں کی ضروریات کاخیال رکھتے تھے، وہ کوئی اور نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلیفہء ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ذات تھی اور جناب عمرکہتے تھے اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمرسے اس بارے میں پوچھاجائے گا۔

Leave a reply