آئی پی پیز کا مسئلہ: سابق نگران وزیر گوہر اعجاز کا فرانزک آڈٹ کا مطالبہ

0
152
gohar ijaz

سابق نگران وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے پاکستان کے بجلی کے شعبے میں آزاد بجلی پیداکار (آئی پی پیز) کے معاملے پر سنجیدہ تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل نکالنا ملک کی سالمیت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے گوہر اعجاز نے کہا، "یہ 24 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے۔ ہم نے 2018 میں بھی اس معاملے کو اٹھایا تھا۔ اگر اس وقت ان کا آڈٹ ہو جاتا تو آج معاملات اس حد تک نہ پہنچتے۔”سابق وزیر نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس صورتحال کو جسٹی فائی نہ کرے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ معاہدے ایمانداری سے نہیں ہوئے۔ گوہر اعجاز نے ایک حیران کن پیشکش کرتے ہوئے کہا، "حکومت کو فرانزک آڈٹ کے لیے ہم سارا خرچہ دینے کو تیار ہیں۔”
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ کوئلہ 300 ڈالر فی ٹن پر منگوایا گیا جبکہ اس کی اصل قیمت 100 ڈالر فی ٹن سے بھی کم تھی۔ "سب کچھ سامنے ہے، فرانزک آڈٹ ہونا چاہیے،”گوہر اعجاز نے حکومت کے پاور پلانٹس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے۔ انہوں نے بتایا کہ 52 فیصد بجلی گھر حکومت کے پاس ہیں، لیکن وہ انہیں صرف 33 فیصد صلاحیت پر چلا رہی ہے۔ "حکومتی پلانٹس کی کیپسٹی پیمنٹ پوری لی جا رہی ہے۔ اگر حکومت سنجیدہ ہے تو اپنے پلانٹس سے فوری طور پر ریلیف دے سکتی ہے،
سابق وزیر نے حکومت کو ایک تجویز پیش کی کہ وہ اپنے 52 فیصد پلانٹس سے کیپسٹی پیمنٹ ختم کرے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ جو پلانٹ سستی بجلی دے سکتا ہے، اس سے بجلی خریدی جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے نجی شعبے کے پلانٹس کا فرانزک آڈٹ کروانے کا مطالبہ کیا۔گوہر اعجاز نے ایک حیران کن انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ہر بند پلانٹ کو 400 کروڑ روپے دیے جا رہے ہیں، جو کہ قومی خزانے پر ایک بھاری بوجھ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گوہر اعجاز کے انکشافات اور تجاویز پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔ توانائی کے شعبے میں شفافیت لانے اور ناجائز منافع خوری کو روکنے کے لیے فرانزک آڈٹ ایک موثر قدم ہو سکتا ہے۔ حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس معاملے پر فوری توجہ دے اور ملکی معیشت کو درپیش اس سنگین مسئلے کا حل نکالے۔یہ معاملہ نہ صرف پاکستان کی معاشی صحت کے لیے اہم ہے بلکہ عام شہریوں کے لیے بجلی کے بلوں میں ممکنہ کمی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ حکومت اس چیلنج سے کیسے نمٹتی ہے اور کیا وہ گوہر اعجاز کی تجاویز پر عمل کرتی ہے یا نہیں۔

Leave a reply