آزادی کا دکھ یا دکھ کی آزادی؟

آزادی کا دکھ یا دکھ کی آزادی؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی سرکاری سطح پر جشن آزادی شایان شان منانے کیلئے میٹنگز اور اقدامات شروع کر دئے جاتے ہیں اور بازاروں میں بھی قومی پرچم اور رنگ برنگی جھنڈیوں اور بچوں سے لیکر بڑوں تک کے لباس اور مختلف اشیاء کے سٹال سج جاتے ہیں ،آج جب ہم اپنی آزادی کا جشن منانے جا رہے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ یا پھر ہم مہنگائی، بے روزگاری اور بجلی کے بل کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں؟ ہمارے نوجوان ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں اور ہمارے عوام خودکشیاں کر رہے ہیں۔ کیا یہی آزادی ہے جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں؟آزادی کا مطلب صرف سیاسی آزادی نہیں ہوتا بلکہ اس میں معاشی آزادی بھی شامل ہے۔

آج جب ہمارے ملک میں مہنگائی آسمان کو چھوچکی ہے اورروزانہ کی بنیاد پر مہنگائی میں اضافہ سے عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل ہو گیا ہے،بے روزگاری کا مسئلہ بھی شدت اختیار کر رہا ہے اور ہمارے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہیں مل پا رہے۔ نتیجتاََ وہ مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں اور ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔بھاری بھرکم بجلی کے بل بھی عوام کیلئے ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں، گرمیوں میں لوگ بجلی کے بل ادا کرنے میں بہت مشکل محسوس کرتے ہیں، اور خودکشیوں کا بڑھتا ہوا رجحان بھی ایک تشویشناک صورتحال ہے۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک پاکستان ہے، اکنامک سروے 2023-2024 کے مطابق پاکستان میں تقریبا 45 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہیں جن میں 15 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے،بے روزگاری کی وجہ سے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہیں مل پا رہے اور وہ مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں،ملک میں بیروزگاری اور مایوسی کی وجہ سے پاکستانی نوجوان غیرقانونی طریقے سے باہر جانے پر مجبورہوچکے ہیں ،غیرقانونی طریقے سے دیار غیرجانے والے نوجوان اکثروبیشترحادثات شکارہوجاتے ہیں ،ماہرین کے مطابق حکومت پاکستان نوجوانوں کے غیر قانونی طریقے سے باہر جانے کے اسباب پر توجہ ہی نہیں دے رہی ہے۔

پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں خودکشی کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں،اعداد و شمار کے تجزیہ کے مطابق ملک میں ہر گھنٹے میں 3افراد اپنے ہی کسی عمل سے اپنی سانس کی ڈور کو توڑ لیتے ہیں، ملک میں خودکشی کے اعداد و شمار ایک سنگین تصویر پیش کر رہے ہیںایک رپورٹ کے مطابق پاکستان خودکشی کے اعتبار سے دنیا میں 16ویں نمبر پر آ چکا ہے ،تشویش ناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں 15سے 29 سال کی عمر کے افراد میں خودکشی موت کی چوتھی بڑی وجہ کے طور پر سامنے آئی ہے۔ عمر کا وہ گروپ جسے امید، صلاحیت اور موقع کی علامت ہونا چاہیے اس دل دہلا دینے والی حقیقت سے دو چار ہے۔

مہنگی بجلی تمام پاکستانیوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی ہے،بجلی کی زیادہ قیمت شہریوں کو غربت میں دھکیل رہی ہے اور کاروبارکو دیوالیہ کر رہی ہے، بجلی پاکستان کی صنعتوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ ہے اور یہ براہ راست 240 ملین لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے، توانائی کے مسئلے پر ہمیشہ سے عوام کوبے وقوف بنایاجاتا رہاہے اور پاکستان کی اشرافیہ نے ڈیم نہیں بننے دئے اور سستی بجلی کا جھانسہ دیکر بجلی فراہم کرنے کیلئے پرائیوٹ IPP بنائیں اور پاکستان اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹااور تاحال لوٹ رہے ہیں ان اداروں کے مالکان حکومت میں رہے ہیں اور ہیں، عوام کیلئے بجلی کابحران پیدا کرنے والے پاکستان کے 40 خاندان ہیں کوئی ادارہ ، کوئی عدلیہ ان پر ہاتھ نہیںڈال سکتی ۔

آزادی ایک قیمتی نعمت ہے، ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے لیکن یہ جشن صرف خوشیوں کا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں ہمیں اپنی مشکلات اور چیلنجوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔کیا ہم جشن منانے کے قابل ہیں؟ذرا غور کریں جس ملک میں مہنگائی، بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام اور دیگر مسائل نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہوتواس سب کے باوجود ہم آزادی کا جشن کیسے منا سکتے ہیں؟ کیا یہ آزادی کا جشن ہے یا پھر یہ دکھ کا جشن ہے؟

Leave a reply