کچے کے ڈاکوؤں کے سر کی قیمت میں اضافہ ، ڈاکوؤں کے خلاف بڑا آپریشن

0
66

حکومت پنجاب نے ڈاکوؤں کے خلاف جنگ میں اہم قدم اٹھاتے ہوئے کچے کے علاقے کے خطرناک ترین ڈاکوؤں (ہائی ویلیو ٹارگٹس) کے سروں کی قیمت مقرر کر دی ہے۔ حکومت کے جاری کردہ بیان کے مطابق، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ان مجرموں کے خلاف کارروائی کو مزید مؤثر بنایا جا سکے۔اعلان کے مطابق، حکومت پنجاب نے کچے کے علاقے میں موجود انتہائی خطرناک ڈاکوؤں کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کی ہے۔ اگر ان ڈاکوؤں کو گرفتار کیا جاتا ہے تو انعام کی رقم 50 لاکھ روپے ہوگی۔ اسی طرح کم خطرناک ڈاکوؤں اور دہشتگردوں کی گرفتاری پر 25 لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔ یہ اقدام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت ڈاکوؤں کے خلاف کاروائی کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ماچھکہ کے علاقے میں کچے کے ڈاکوؤں نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات ایک شدید راکٹ حملہ کیا، جس میں 12 پولیس اہلکار شہید اور 9 زخمی ہو گئے۔ اس حملے نے پورے سیکیورٹی سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پولیس کے مطابق، یہ ڈاکوؤں کا اب تک کا سب سے بڑا حملہ تھا، جو کہ ان کی بڑھتی ہوئی طاقت اور دہشت کا واضح ثبوت ہے۔حملے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور، سیکرٹری داخلہ اور دیگر اعلیٰ افسران رحیم یار خان میں موجود ہیں تاکہ اس آپریشن کو خود دیکھ سکیں اور مناسب اقدامات کر سکیں۔ آئی جی پنجاب نے اس موقع پر کہا کہ پنجاب پولیس کے بہادر جوانوں نے ہمیشہ ملک و قوم کے لیے عظیم قربانیاں دی ہیں اور پولیس کچے کے ڈاکوؤں کے خاتمے تک اپنی کارروائیاں جاری رکھے گی۔
کچے کا علاقہ تقریباً 60 سے 100 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے اور یہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے ساتھ جڑا ہوا ہےاور اس علاقے میں اب تک 17 سے 18 آپریشن کیے جا چکے ہیں، لیکن کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال پولیس ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرتی ہے، مگر ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچے کے علاقے میں سرداری نظام کے خاتمے کے بعد مختلف گینگز نے طاقت حاصل کر لی ہے۔
کچے کے علاقے میں موجود گینگز کے پاس جدید اسلحہ ہے، جو مختلف ذرائع سے ان تک پہنچتا ہے۔ ان کے پاس نیٹو کا لوٹا ہوا اسلحہ بھی ہے، جو افغانستان سے یہاں پہنچتا ہے، جبکہ کچھ اسلحہ بھارت سے بلوچستان کے راستے اسمگل کیا جاتا ہے۔ ان گینگز کے پاس جدید ہتھیاروں کی موجودگی انہیں پولیس کے مقابلے میں مضبوط بناتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب تک کے آپریشنز ناکام رہے ہیں۔ اس علاقے کے 12 سے 13 ایس ایچ اوز مختلف گینگز کو سپورٹ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ گینگز محفوظ ہیں اور ان کے خلاف آپریشنز ناکام ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال کا نقصان پولیس سپاہیوں کو ہوتا ہے، جو آپریشن کے دوران شہید ہو جاتے ہیں، جبکہ اعلیٰ افسران کو کچھ نہیں ہوتا۔
مقامی اخبار کے ایک صحافی کے مطابق، پولیس سرداروں کو بھی سپورٹ کرتی ہے، جو کہ علاقے کی موجودہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ یہ صورتحال پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے اور جب تک اس کا مؤثر حل نہیں نکالا جاتا، ڈاکوؤں کے خلاف کارروائیوں میں کامیابی ممکن نہیں ہوگی۔ انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو کچے میں تعینات تمام ایس ایچ اوز کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثے چیک کروانے چاہیے، تاکہ اصل حقائق سامنے آ سکیں۔پنجاب حکومت کا ڈاکوؤں کے خلاف انعامات کا اعلان اور پولیس کی جانب سے جاری آپریشنز اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ حکومت ان مجرموں کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔ تاہم، پولیس سسٹم میں موجود خرابیوں اور گینگز کے جدید ہتھیاروں کی موجودگی جیسے مسائل کے حل کے بغیر اس جنگ میں کامیابی حاصل کرنا ایک مشکل چیلنج ہے۔

Leave a reply