پاکستان کے ترقی پسند شاعر احمد فراز کی 16ویں برسی: ایک عہد ساز شاعر کی یاد

0
63
AHMAD FARAZ

مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اس کے
فصیل شہر کے ہر برج ہر منارے پر
کماں بہ دست ستادہ ہیں عسکری اس کے
وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش
وجود خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی
بچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں
وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی
سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے
سپرد دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے
مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اس دزد نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دہرا نقاب رکھتا ہے
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
سرشت عشق نے افتادگی نہیں پائی
تو قد سرو نہ بینی و سایہ پیمائی
آج پاکستان کے معروف اور ترقی پسند شاعر احمد فراز کی 16ویں برسی عقیدت اور احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ احمد فراز، جن کا اصل نام سید احمد شاہ تھا، 12 جنوری 1931 کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ وہ اردو شاعری کے آسمان پر ایک چمکتا ہوا ستارہ تھے، جن کی روشنی آج بھی لوگوں کے دلوں میں موجود ہے۔ فراز کی شاعری میں محبت، انقلاب، اور انسانی حقوق کی بازگشت ہمیشہ سنائی دیتی ہے۔ احمد فراز نے اپنی تعلیمی زندگی کے دوران ہی شاعری کا آغاز کیا اور اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ماسٹر ڈگریاں حاصل کیں۔ ان کی شاعری میں جہاں ایک طرف رومانوی جذبات کی گہرائی نظر آتی ہے، وہیں دوسری طرف ظلم و ستم کے خلاف انقلابی صدائیں بھی بلند ہوتی ہیں۔ فراز نے معاشرتی ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف اپنی شاعری کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، جو انہیں اپنے وقت کے دیگر شاعروں سے منفرد بناتا ہے۔

مشہور تصانیف
احمد فراز کی مشہور تصانیف میں "تنہا تنہا””دردِ آشوب””نیافت””شب خون””مرے خواب ریزہ ریزہ اور "جاناں جاناں” شامل ہیں۔ ان کی کتابیں نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں اردو ادب کے شائقین کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ "تنہا تنہا” میں جہاں محبت کے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے، وہیں "دردِ آشوب” میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف ایک شور سنائی دیتا ہے۔احمد فراز کی شاعری کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف دلوں کو چھو لیتی ہے بلکہ دماغ کو بھی جھنجھوڑتی ہے۔ وہ محبت کے شاعر تو تھے ہی، لیکن ان کی شاعری میں ایک بے باکی اور بے خوفی بھی تھی، جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کی نظموں میں ایک طرح کا احتجاج اور بغاوت کا رنگ بھی تھا، جو انہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا۔

احمد فراز کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں کئی بڑے اعزازات سے نوازا گیا۔ ان میں آدم جی ادبی ایوارڈ،ستارہ امتیاز، اور ہلال امتیاز جیسے اہم قومی اعزازات شامل ہیں۔ یہ اعزازات ان کی شاعری کی قدردانی اور ان کے ادبی مقام کو تسلیم کرتے ہیں۔ فراز نے اپنی شاعری کے ذریعے اردو ادب کو نئی بلندیوں تک پہنچایا اور ان کی ادبی وراثت آج بھی زندہ ہے۔

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جان جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے
یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایا ہے کہ تم ہو
اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو
دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری
دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو
اے جان فرازؔ اتنی بھی توفیق کسے تھی
ہم کو غم ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو

احمد فراز کی شاعری آج بھی عوام میں مقبول ہے اور ان کے اشعار مختلف مواقع پر زبان زد عام ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں موجود سادگی اور جذبات کی گہرائی نے انہیں ہر عمر کے لوگوں کے دلوں میں جگہ دی ہے۔ فراز کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے مختلف تقاریب، مشاعرے، اور یادگاری نشستیں منعقد کی جاتی ہیں، جہاں ان کے اشعار کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔احمد فراز کی برسی ایک موقع ہے کہ ہم ان کی زندگی اور ادبی خدمات کو یاد کریں اور ان کے پیغام کو آگے بڑھائیں۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے آج بھی ہمارے درمیان زندہ ہیں، اور ان کے اشعار ہمیشہ ہمارے دلوں میں گونجتے رہیں گے۔

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

Leave a reply