صارفین کے ڈیٹا کی فروخت میں پولیس افسران کے ملوث ہونے کا بڑا انکشاف

0
64
police data

پاکستان میں ایک حیران کن انکشاف سامنے آیا ہے کہ پولیس افسران صارفین کے ذاتی ڈیٹا کی فروخت میں ملوث ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی تحقیقات کے مطابق، وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کے تحت 72 تحقیقاتی افسران کو ٹیلی کام صارفین کے ڈیٹا تک رسائی حاصل تھی، اور حالیہ تحقیقات میں ان افسران کی جانب سے ڈیٹا کی فروخت کے کیسز سامنے آئے ہیں۔پی ٹی اے کے ذرائع کے مطابق، ڈیٹا لیکج کی 21 شکایات پر کی جانے والی تحقیقات نے یہ بات واضح کی ہے کہ پولیس افسران بلوچستان، پنجاب، اور سندھ میں صارفین کے ڈیٹا کی فروخت میں ملوث تھے۔ یہ افسران صارفین کا ذاتی ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد اسے 2,500 سے 3,000 روپے میں فروخت کرتے تھے۔ ان افسران کی جانب سے ڈیٹا کی فروخت سے روزانہ 2 لاکھ سے 2.5 لاکھ روپے کی کمائی کی جاتی تھی۔معاملے کی تحقیقات کے دوران، ڈیٹا کی فروخت میں ملوث پولیس افسران نے الزام لگایا کہ ان کے اکاؤنٹس ہیک ہوئے تھے اور انہیں بغیر کسی علم کے ڈیٹا فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ تاہم، پی ٹی اے کی تحقیقات میں ان افسران کی طرف سے اس موقف کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
پی ٹی اے نے اس سنگین معاملے پر وزارت داخلہ کو ایک مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ذریعے شہریوں کے ذاتی ڈیٹا کی لیکیج اور فروخت کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ پی ٹی اے نے وزارت داخلہ سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پی) کو تبدیل کرے اور پولیس افسران اور سیکیورٹی اہلکاروں کے ذریعے شہریوں کے ڈیٹا کی لیکیج کو روکنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی بنائے۔وزارت داخلہ کے سامنے پی ٹی اے کی درخواست میں، یہ تجویز دی گئی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے شہریوں کے ڈیٹا کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں اور ایک مؤثر نگرانی کا نظام متعارف کرایا جائے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔یہ انکشاف ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان میں ڈیجیٹل ڈیٹا کی سیکیورٹی اور رازداری ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے۔ اس معاملے کی تحقیقات اور اس کے نتیجے میں اٹھائے جانے والے اقدامات شہریوں کے اعتماد کو بحال کرنے اور ڈیٹا کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

Leave a reply