اتائیت کاعفریت، ذمہ دارکون؟

اتائیت کاعفریت، ذمہ دارکون؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
ڈاکٹرز ہمارے معاشرے کا وہ محسن طبقہ ہے جو صحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ڈاکٹر مسیحا کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن اس مقدس پیشہ کو کچھ ہوس زرمیں مبتلا ڈاکٹرزکے علاوہ نیم حکیم اور اتائی داغدار کررہے ہیں،لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں بتایا کہ اتائیت کے پھیلتے اس عفریت کے ذمہ دار کون ہیں اور یہ کیونکر اور کیسے خود روجھاڑیوں کی طرح ہر قصبے ،شہر اورگلیوں میں موجودہیں ،آئیے اس مضمون میں ہم اس مسئلے کی جڑ تک پہنچنے اوریہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کے اصل ذمہ دار کون ہیں ؟

ہمارے ملک میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت اتنی خراب ہے کہ عام شہریوں کو سرکاری ہسپتالوں میں صحت کی کوئی سہولیات میسرہی نہیں ہیں،،سرکاری ہسپتالوں کے بیشترڈاکٹرہسپتالوں میں صرف بائیومیٹرک حاضری لگاکر اپنے پرائیویٹ کلینک یاہسپتالوں میں مریض چیک کرنے کیلئے چلے جاتے ہیں ،یہی ڈاکٹرزجنہیں مسیحا کہاجاتا ہے سرکارسے بھاری تنخواہیں اور نان پریکٹس الاؤنس تک لیتے ہیں لیکن سرکاری ہسپتال میں مریضوں کو چیک کرکے ان کاعلاج کرنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں،سفارش کلچراور اہل ڈاکٹروں کی عدم موجودگی اتائیت کو فروغ دینے والا سب سے بڑا سبب ہے۔ جب لوگوں کو سرکاری اداروں سے بنیادی طبی سہولیات بھی میسر نہ آئیں تو وہ مجبورا اتائی ڈاکٹروں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس سے نہ صرف فرد بلکہ پوری قوم کو نقصان پہنچتا ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

کوالیفائیڈ ڈاکٹروں کی مہنگی فیسوں، غیر ضروری ٹیسٹوں اور کمیشن کی بنیاد پر لکھی جانے والی دواؤں نے عوام کو اتنا پریشان کر دیا ہے کہ ایک عام مریض کو ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ دوسری جانب اتائی ڈاکٹر دو تین سو روپے میں ہی علاج کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اتائی ڈاکٹروں کی طرف جاتے ہیں، اس صورتحال میں کوالیفائیڈ ڈاکٹرزبھی اتائیت پھیلانے میں براہ راست ملوث نظر آتے ہیں،کیونکہ بڑے اورکوالیفائیڈ ڈاکٹر بہت زیادہ فیس لیتے ہیں اور بہت سی دوائیاں لکھتے ہیں، اس لیے لوگ سستی دوائی کے لیے اتائی ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں اور اسی وجہ سے اتائیت پھیل رہی ہے۔

بڑے ڈاکٹر اکثر کم پڑھے لکھے افراد کو اپنے ہسپتالوں میں کام پر رکھتے ہیں اور انہیں کم تنخواہ دیتے ہیں، یہ لوگ ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے کچھ طبی علم حاصل کر لیتے ہیں اور پھر اپنی کلینک کھول لیتے ہیں، بڑے ڈاکٹر ان کی افتتاحی تقریب میں شریک ہو کر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہ ان کے شاگرد ہیں اور ان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے، اس طرح بڑے ڈاکٹر اپنے شاگردوں کا ایک نیٹ ورک بنا لیتے ہیں اور یہ شاگرد پھر لوگوں کو بڑے ڈاکٹروں کے پاس بھیجتے ہیں، اس طرح بڑے ڈاکٹر براہ راست طور پر اتائیت کو فروغ دیتے ہیں،کوالیفائیڈ ڈاکٹروں کا یہ عمل انتہائی خطرناک ہے کیونکہ ان کے شاگردوں کے پاس کافی طبی علم نہیں ہوتا اور وہ لوگوں کو غلط علاج دے سکتے ہیں، اس طرح بڑے ڈاکٹر نہ صرف اپنی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ لوگوں کی جانوں سے بھی کھیلتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے پرائیویٹ ہسپتالوں میں کام کرنے والے عملے کی مناسب جانچ پڑتال نہ ہونا، اتائیت کے پھیلا ؤمیں ایک بڑا سبب ہے۔ یہ حیران کن ہے کہ حکومت نے کبھی بھی اس بات کی فکر نہیں کی کہ شہروں کے ہسپتالوں میں جو لوگ مریضوں کا علاج کر رہے ہیں، وہ اس کے لیے اہل ہیں یا نہیں، نہ تو ان کی تعلیمی قابلیت کی جانچ ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی سرٹیفکیٹ یا ڈپلومہ ہونا ضروری ہے۔ اس طرح کی لاپروائی کی وجہ سے بہت سے نااہل لوگ ہسپتالوں میں کام کر رہے ہیں اور مریضوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، حکومت کی جانب سے پرائیویٹ ہسپتالوں پر کوئی مناسب نگرانی نہ ہونا، اتائیت کو فروغ دینے میں براہ راست مددگار ثابت ہو رہا ہے۔

اتائیت کے عفریت پر کیسے قابوپایا جاسکتا ہے

حکومت کو چاہیے کہ اتائیت کے عفریت پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلے سرکاری ہسپتالوں میں ہر شہری کو مفت اور بہتر صحت کی سہولتیں فراہم کرے، سفارش اور رشوت کے کلچر کو ختم کرے، سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو اپنی نجی پریکٹس کرنے سے روکنا چاہیے، جو ڈاکٹر نجی پریکٹس کرتے پکڑے جائیں انہیں نوکری سے برطرف کر دینا چاہیے۔ تمام ڈاکٹروں کے لیے فیس کا ایک مخصوص تعین کرنا چاہیے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کرنا چاہیے،جو ڈاکٹر مریضوں سے زیادہ پیسے لیتے ہیں یا غیر ضروری ٹیسٹ کرواتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ دوائیوں کی کمپنیوں کے ساتھ مل کر مریضوں کو مہنگی دوائیاں لکھنے والے ڈاکٹروں کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہیے۔ نجی ہسپتالوں میں کام کرنے والے عملے کی تعلیمی قابلیت کی بھی جانچ پڑتال ہونی چاہیے،

اس کے علاوہ اتائیت کے مسئلے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ جو لوگ باقاعدہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں، جیسے کہ ڈسپنسر یا کلینیکل اسسٹنٹ، انہیں ان کی اہلیت کے مطابق دور دراز کے دیہی علاقوں میں لائسنس دے کر کلینکس کھولنے کی اجازت دی جائے۔ انہیں مناسب فیس لینے کی اجازت ہو، اس طرح ایک طرف تو لوگوں کو سستی اور آسان طبی سہولیات میسر آ جائیں گی اور دوسری طرف اتائیت کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔بڑے ڈاکٹروں کے پیدا کردہ اتائی شاگردوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ ان لوگوں کو شناخت کرکے ان کے خلاف قانون کا پورا اطلاق کیا جانا چاہیے، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کو ان سے دور رہنے کے لیے آگاہ کیا جانا چاہیے۔ عوام کو بھی اس بات کے لیے آگاہ کیا جائے کہ وہ نان کوالیفائڈ لوگوں سے علاج نہ کروائیں۔ تعلیمی اداروں میں آگاہی سیمینارز کے ذریعے لوگوں کو طبی تعلیم کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے تاکہ وہ خود بھی اس بات کو سمجھ سکیں کہ نان کوالیفائڈ لوگوں سے علاج کروانا کتنا خطرناک ہے

اگر حکومت نے اتائیت کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے اور ان پر عمل درآمد بھی کیا تو یہ مسئلہ ضرور حل ہو سکتا ہے۔ لیکن صرف بلند بانگ دعوؤں اور فوٹو سیشنز سے یہ حل نہیں ہوگا، حکومت کو شفافیت اور جوابدہی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، عوام کو بھی اس مسئلے کے حل میں شریک بنایا جانا چاہیے۔ میڈیا کو بھی اتائیت کے مسئلے کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اتائیت کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ اگر حکومت نے ان تمام اقدامات پرعمل کرلیا تو ہم اتائیت کے مسئلے سے جلد از جلد نجات پا سکتے ہیں اور اتائیت کے عفریت کو بھی جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب ہوجائیں گے،اگرحکومت نے سنجیدگی نہ دکھائی تو جس طرح پہلے اتائیت کاکوئی کچھ نہیں بگاڑسکا اب بھی اتائی اسی شان وشوکت سے اپنے کلینک چلاتے رہیں گے اور انسانیت سسکتی رہے گی.

Leave a reply