اسلام آباد ہائیکورٹ: پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین کی بازیابی درخواست پر آئی جی پولیس کو نوٹس جاری کر دیا گیا

اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو آج دن اڑھائی بجے طلب کر لیا ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے شعیب شاہین کے بھائی کی درخواست پر احکامات جاری کیے ،شعیب شاہین کو کل پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تھا،اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل کو بھی طلب کر لیا ،عدالت نے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو بھی اڑھائی بجے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا

دوبارہ سماعت ہوئی تو آئی جی اسلام آباد عدالت پیش ہوئے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ چونکہ یہ درخواست صرف شعیب شاہین کی بازیابی کی ہے، مگر آئی جی صاحب پھر بھی پوچھ رہا ہوں کہ نیشنل لیول کے لوگ ہیں سب،کیا کسی کو غیر قانونی طور پر گرفتار رکھا گیا ہے؟ آئی جی نے عدالت میں کہا کہ نہیں سب کی باقاعدہ گرفتاری ڈالی گئی ہے، وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ شعیب شاہین نے کسی بھی کارکن کو کسی قسم کی کوئی ہدایت نہیں دی،آپ نے سارا اسلام آباد بند کر دیا تھا این او سی دے کر لوگوں پر شیلنگ کی گئی ،لا انفورسمنٹ نے لوگوں کی حفاظت کرنا تھی ،لیکن انھوں نے شیلنگ کی،یہ وزیر داخلہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ لوگوں کی حفاظت کرے،وزیر داخلہ کا کام کیا رہ جاتا ہے اسے کس لیے رکھا گیا ہے

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ پولیس اسٹیشن نون نے گرفتار کیا تو کیا کسی اور تھانے کا ایس ایچ او بھی گرفتاری کے لیے گیا؟اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے شعیب شاہین کی گرفتاری کے ڈاکومنٹس مانگ لیے اور کہا کہ اس میں لکھا ہے کہ گرفتاری کے بعد بند حوالات سی آئی اے کیا گیا،یہ بھی لکھا ہے کہ گرفتار ملزم کو پیش مجاز عدالت کیا جائے گا،کیا گرفتاری کے بعد شعیب شاہین کی تحویل سی آئی اے کو دی گئی تھی؟ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ شعیب شاہین کو پیش کر کے جسمانی ریمانڈ مانگا گیا ہے اور سماعت اے ٹی سی میں چل رہی ہے،ووکیل شہباز کھوسہ نے کہا کہ دوران گرفتاری پولیس اہلکاروں نے بدتمیزی کی۔جس کی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ شعیب شاہین مختلف دفعات کے تحت گرفتار ہیں۔میں اس سارے معاملے کو دیکھ لیتا ہوں۔تمام افراد کو قانون کے مطابق گرفتار کیا گیا ہے۔

شعیب شاہین عدالت پیش، پولیس کو کہا میں ڈیجیٹل نہیں کلاشنکوف والا دہشتگرد ہوں،شعیب شاہین
دوسری جانب شعیب شاہین کو انسداد دہشت گردی عدالت پیش کر دیا گیا،شعیب شاہین نے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں وکٹری کا نشان بنا دیا وکلاء کو نعرے بازی نہ کرنے اور استقامت کی ہدایت کی،شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ مجھے پہلے تھانہ رمنا میں رکھا گیا پھر سی آئی اے لے گئے،رات کو گرفتار ہونے والے تمام ارکان اسمبلی بھی سی آئی اے میں ہیں، ارکان اسمبلی کو علی الصبح سی آئی اے میں لایا گیا،میں زیادہ بڑا دہشتگرد ہوں اس لئے مجھے کل ہی سی آئی اے لے گئے تھے، تفتیش میں مجھ سے موبائل کا پاسورڈ مانگا گیا،پولیس کو جواب دیا کہ مقدمہ دہشتگردی کا درج کیا ہے وہ سوال کرو، پولیس کو کہا میں ڈیجیٹل نہیں کلاشنکوف والا دہشتگرد ہوں، مجھ پر مقدمہ تو کلاشنکوف اور بم والا ہے تو سوال بھی وہی پوچھیں،

شعیب شاہین کا 15 روزہ ریمانڈ مانگ لیا گیا
بعد ازاں سماعت ہوئی، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سماعت کی.پراسیکیوٹر کی جانب سے مقدمے کا متن پڑھنا شروع کر دیا گیا،جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ بقیہ ملزمان کے آنے کا بھی انتظار چاہ رہاتھا، کیس شروع کرتے ہیں،شعیب شاہین سے کیا چاہیے ؟ پراسکیوٹر نے مقدمے کا متن پڑھا اور کہا کہ شعیب شاہین نے کارکنان کو اکسایا ، ہمیں ریمانڈ دیا جائے ہم نے شعیب شاہین سے ڈنڈے ، راڈ پولیس کی کٹ برآمد کرنی ہے، 15 روز کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے، ان کے خلاف دہشتگردی کا مقدمہ درج ہے، اس میں ہم 90 دن کی ریمانڈ لے سکتے ہیں،جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ جلسہ کب سے کب تک تھا؟ جلسے کا بتائیں،پراسکیوٹر نے کہاکہ جلسے کا وقت 4 سے 7 بجے تک تھا، امن و امان کا ایکٹ نیا آیا ہے، تحریک انصاف کا جلسہ چلتا رہا، انتظامیہ نے بہت کوشش کی امن و امان قائم رہے، جلسہ کی جگہ سے بارود بھی برآمد آیا، تحریک انصاف کی قیادت نے اشتعال پیداکیا،پراسیکیوٹر راجہ نوید کے دلائل مکمل ہوئے،شعیب شاہین کے وکیل نے دلائل شروع کر دئیے

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ جلسے کا این او سی 7 بجے تک کا تھا اور مقدمہ 6:30 بجے درج کیا گیا ،اس مقدمے میں شعیب شاہین کا زکر کیا گیا شعیب شاہین اس جگہ پر موجود بھی نہیں تھے ، شعیب شاہین شئیر وکیل ہیں ، یہاں بندہ سانس لیتا ہے تو مقدمہ درج کر دیا جاتا ہے ،مقدمے میں لکھا ہے شعیب شاہین ڈکیت ہے ، میرے بھائی کو کمانڈنگ للکار کا پتہ ہی نہیں،شعیب شاہین اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر رہے، سپریم کورٹ کا وکیل ہے، اور ایک بڑی سیاسی جماعت کا اہم ممبر ہے،کہا جارہا ہے کہ شعیب شاہین اور عامر مغل نے کارکنوں کو اکسایا جو کہ شعیب شاہین وہاں موجود ہی نہیں،شعیب شاہین کا ریمانڈ نہیں بلکہ ڈسچارج کا کیس ہے،وکیل صفائی ریاست علی نے کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کردی،کہا کہ شعیب شاہین کو تو پولیس کو ہی ڈسچارج کردینا چاہیے تھا،شعیب شاہین کے ریکارڈ پر کوئی ماضی میں مقدمات نہیں،اتنی شاپر میں جگہ نہیں جتنی تحریک انصاف والوں کے خلاف مقدمات درج ہورہےہیں، ایسے تو جناب کا یا میرا نام لیں گے تو کیا ہم ملزم ہونگے؟ ،یہ کس چیز کی تفتیش کررہے ہیں کیا شعیب شاہین سے ایٹم بم برآمد کررہے، اس کیس میں ریمانڈ کی مخالفت نہیں کرو ں گا بلکہ شعیب شاہین کو مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے ،شکر ہے انتظامیہ نے تحریک انصاف کو یونیفارم میں جلسہ کرنے کی ہدایت نہیں کی،مقدمہ میں پورے کا پورا پاکستان پینل کوڈ درج کردیاہے،مجھے شرم آرہی ہے کہ سینئیر اور پروفیشنل وکیل شعیب شاہین کو ملزم کہوں ،معاشرے میں ایک عزت دار شخص کی آپ توہین کررہے ہیں آپ اسے دہشت گرد پیش کررہے ہیں،یہ صرف اور صرف اختیارات کے ناجائز اور غیر قانونی استمعال کیا جارہا ہے،ہم عدالت کو سی سی ٹی وی فوٹیجز دکھایں گے کہ لاء چیمبر سے اٹھایا گیا،

جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ شعیب شاہین کا کیا کردار ہے وہ بتا دیں ، پراسیکیوٹر نے کہا کہ انہوں نے ہدایت دی تھی ، وکیل ریاست علی آزاد نے کہا کہ یہ ہدایت ہدایت کہ رہے اللہ انکو ہدایت دے،وکیل کے چیمبر کو تحفظ فراہم ہوتاہے،شعیب شاہین اپنی پیشہ ورانہ زمہ داری نبھا رہے تھے شعیب شاہین کو ایک اور مقدمہ میں بھی نامزد کررکھاہے، پراسکیوٹر راجہ نوید نے کہا کہ تحریک انصاف کا پورا گینگ ہے، وکیل ریاست علی آزاد نے کہا کہ جی بہت بڑا ڈکیت گینگ ہے ، جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ جلسہ کب سے کب تک تھا؟ کیا خلاف ورزی کی ہے ؟ پراسیکیوٹرراجانوید نے کہا کہ تحریک انصاف نے ایگریمنٹ کیاتھاکہ این او سی کی مکمل پابندی کریں گے، عدالت نے استفسار کیا کہ سنگجانی جلسہ گاہ اور 26 نمبر چونگی میں کتنا فاصلہ ہے،وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ دونوں مقامات میں 7 سے 8 کلومیٹر کا فاصلہ ہے ، عدالت نے کہا کہ تو پھر یہ ہجوم وہاں پہنچ کیسے گیا ؟،

صدر اسلا م آباد بار نے کہا کہ شعیب شاہین کے کلائنٹس ان کے آفس بیٹھے ہوئے تھے کیا میسج دیا گیا،ہم سب کے لیے کلائنٹس بہت عزیز ہیں،مگر کیا ہوا سب نے دیکھ لیا،چیف جسٹس آف پاکستان کہتے ہیں پارلیمان مقتدر ہے،مقدمے میں جو کہا گیا وہ مفروضے ہیں، کیونکہ شعیب شاہین نے کب کس جگہ کارکنوں کو ہدایت دی، جو شخص ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے آفس جاکر این او سی لیتے ہیں وہ کسی کو یہی کہے گا،کہاں پر شعیب شاہین نے کہا کس کو کہا؟،جلسے کی این او سی جب دی تو راستے کیوں بند کردئیے گئے؟،کارکنوں نے اپنے جلسے میں جانا تھا انہوں نے راستے بند کردیے تھے،

Shares: