جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما سینیٹر کامران مرتضیٰ نے آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 8 اور آرٹیکل 199 میں مجوزہ ترامیم نے بنیادی حقوق پر عدالتوں کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی تھی۔ سینیٹر مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ عدالتوں کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر قانون سازی کالعدم کرنے کا اختیار حاصل ہے، لیکن مسودے میں کچھ استثنائی شقوں کو محدود کر دیا گیا تھا جس سے عدالتوں کے اختیارات متاثر ہو رہے تھے۔پروگرام گفتگو میں سینیٹر کامران مرتضیٰ نے مزید بتایا کہ مسودے میں مسلح افواج سے متعلق شقیں بھی شامل کی گئی تھیں جو انہیں اور ان کی جماعت کے لیے باعث تشویش تھیں۔ انہوں نے کہا کہ "پہلی تکلیف مجھے اس شق سے ہوئی تھی، اور اگر یہ ترامیم پاس ہو جاتیں تو بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہمارے لیے مشکلات پیدا ہو جاتیں۔”
سینیٹر مرتضیٰ کے مطابق، آرٹیکل 199 (3) میں قومی سلامتی کے نام پر عدالتوں کے اختیارات محدود کیے گئے تھے، جس پر جے یو آئی (ف) کو شدید تحفظات تھے۔ انہوں نے کہا کہ "آپ نے آدھی رات کو دستاویز دی اور فوری منظوری کا مطالبہ کیا، حالانکہ یہ سماجی معاہدہ ہے، اور سماج سے چھپا کر اسے منظور کروانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جے یو آئی (ف) کی ترجیح بنیادی حقوق کے تحفظ پر ہے، اور وہ کسی بھی ترمیم کی مخالفت کرے گی جو ان حقوق کو کم کرتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے ان ترامیم کو واپس لینے کا وعدہ کیا تھا، تاہم جے یو آئی (ف) کو ابھی تک نیا مسودہ نہیں دکھایا گیا۔سینیٹر کامران مرتضیٰ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ صرف سیاسی نہیں بلکہ عوام کے بنیادی حقوق کا ہے، اور ان ترامیم پر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے انہیں عوام کے سامنے لانا ضروری ہے۔

آئینی ترامیم: جے یو آئی (ف) کے تحفظات اور سینیٹر کامران مرتضیٰ کی تشویش
Shares: