عمران خان کی حکومت میں جسٹس ثاقب نثار نے عمران خان کے قریبی دوست عبدالحفیظ پاشا کو 40 منزلہ گرینڈ حیات ہوٹل واپس بخش دیا۔ جب اس غیر قانونی فیصلے پر سوال کیا گیا تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے فیصلے کے حق میں دو دلائل دئیے۔

پہلی دلیل یہ کہ ۔۔ اگر ایسے ہی غیر قانونی تعمیرات گرانی ہیں تو آدھا اسلام آباد گرانا پڑے گا۔
دوسری دلیل ۔۔ میں نے رات کو خواب دیکھا تھا اور جرمانہ بھی مجھے خواب میں دیکھایا گیا تھا۔

(جیسے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینے سے پہلے یوتھیے صحافی اوریا مقبول جان نے خواب دیکھا تھا کہ باجوہ کو سپاہ سالار حضورﷺ نے بنایا ہے)

ہوٹل کی لیز پر چالیس منزلہ رہائشی ٹاورز بنانے والوں نے اربوں نہیں کھربوں چھاپ لیے۔ کہا جاتا ہے پاکستان کے اس سب سے مہنگے ٹاؤر میں عمران خان، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجازالحسن کا بھی ایک ایک فلیٹ ہے۔

آج سپریم کورٹ کے 8 ججوں نے تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ اس فیصلے میں اعتراف کیا کہ ہم نے مخصوص نشتیں اپنے ضمیر کے فیصلے پر پی ٹی آئی کو دیں۔ آئین اور قانون کی کوئی شق لاگو نہیں کی۔

فیصلے کا لب لباب یہ ہے کہ ۔۔۔
پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں موجود نہیں،
درخواست گزار نہیں،
جیتنے والے امیدواروں نے حلف نامہ سنی اتحاد کونسل کے لیے جمع کروایا ہے،
مخصوص نشتیں بھی سنی اتحاد کونسل نے مانگی ہیں،

لیکن ہم نے گمان کر لیا کہ آزاد امیدوار دراصل پی ٹی آئی کے تھے،
آزاد امیدواروں کے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کے حلف نامے جھوٹے تھے،
پی ٹی آئی نے مخصوص نشتیں نہیں مانگیں لیکن شائد دل میں مانگ رہی تھی،
لہذا ہم یہ نشتیں پی ٹی آئی کو دیتے ہیں۔

یہ جسٹس ثاقب نثار کے خواب دیکھنے والے فیصلے سے ملتا جلتا فیصلہ ہے۔ آئین پاکستان اٹھائیں اور اس فیصلے کی ساری رواداد دنیا کے کسی جج کے سامنے رکھیں وہ اس کو ایک بھونڈا مذاق ہی سمجھے گا اور کچھ نہیں!!

اگر آئین اور قانون کو سائیڈ پر کر کے جج اپنی منشاء کو "ضمیر” کا نام دے کر اس کے مطابق فیصلے کرنے لگیں تو پاکستان کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ایسے ہی فیصلوں کی وجہ سے پاکستانی جج دنیا کے بدترین جج اور پاکستان کی عدلیہ دنیا کی بدترین عدلیہ مانی جاتی ہے۔ ان کو اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ عدالتی اصلاحات کیے بغیر پاکستان میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔

تحریر شاہد خان
@BloggerShahid

Shares: