سوات میں غیر ملکی سفارتکاروں کے قافلے پر ہونے والے بم دھماکے کے بعد ڈی آئی جی مالاکنڈ، محمد علی گنڈاپور، اور ڈی پی او سوات، زاہد اللہ، کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق دونوں افسران کو سینٹرل پولیس آفس (سی پی او) رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔یہ دھماکہ 22 ستمبر کو سوات کے سیاحتی مقام مالم جبہ کے قریب اس وقت پیش آیا جب ایک غیر ملکی سفارتکاروں کا قافلہ وہاں سے گزر رہا تھا۔ اس واقعے میں ایک پولیس اہلکار شہید اور تین دیگر زخمی ہوئے تھے، تاہم خوش قسمتی سے تمام سفارتکار محفوظ رہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بم دھماکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا اور اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں کئی گاڑیاں شدید متاثر ہوئیں۔واقعے کے فوری بعد صوبائی حکومت نے اس سنگین سکیورٹی ناکامی کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی مالاکنڈ اور ڈی پی او سوات کو ان کے عہدوں سے فارغ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی واقعے کی جامع تحقیقات کے لیے دو رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، جس میں ایڈیشنل آئی جی انویسٹیگیشن اور سپیشل سیکرٹری داخلہ شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق، اس تحقیقاتی کمیٹی کو دھماکے کے محرکات، ممکنہ سکیورٹی خامیوں، اور واقعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ کمیٹی دھماکے کے پیچھے ممکنہ عناصر کی نشاندہی کرے گی، چاہے وہ مقامی ہو یا کسی بیرونی تنظیم کے کارندے۔ اس کے علاوہ، کمیٹی سکیورٹی اقدامات میں پائی جانے والی کمیوں کو بھی اجاگر کرے گی تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔کمیٹی کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی جائے گی جو صوبائی حکومت کو پیش کی جائے گی۔ یہ رپورٹ سکیورٹی اقدامات کی بہتری اور ذمہ داران کے تعین میں مددگار ثابت ہوگی۔اس واقعے کے بعد سوات اور خیبرپختونخوا کے دیگر سیاحتی مقامات کی سکیورٹی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سوات کی تاریخ میں سکیورٹی چیلنجز کی موجودگی سے خطے میں سیاحت اور بین الاقوامی تعلقات پر بھی منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ غیر ملکی سفارتکاروں پر ہونے والے اس حملے نے عالمی سطح پر تشویش کو جنم دیا ہے، اور مقامی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔صوبائی حکومت کی جانب سے اس واقعے کے بعد سوات اور دیگر حساس علاقوں میں سکیورٹی کو مزید سخت کرنے کے اعلانات متوقع ہیں۔ مقامی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے صورتحال کی نگرانی کر رہے ہیں اور دھماکے کے ذمہ داران کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اس کے علاوہ، سفارتی ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق، عالمی برادری اس واقعے کی مزید تحقیقات کا مطالبہ کر سکتی ہے۔
Shares: