لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ میں سماعت ہوئی

عدالت نے لاپتہ افراد سے متعلق ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ بتایا جائےلاپتہ افراد، کشمیر، افغانستان یا کسی جیل میں ہیں، زندہ ہیں یا مردہ ہیں،جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بتانا ریاست کی ذمہ داری ہے، ہمیں ایک طریقہ کار وضع کرنا ہوگا کہ لاپتہ افراد کو کیسے بازیاب کرایا جائے، ہم انسانی جانوں کی بات کررہے ہیں جن کے اپنے گھروں میں انکا انتظار کررہے ہیں، یہ لوگ بھی کوئی ریاست یا ریاستی اداروں کے خلاف نہیں،لاہور یا کراچی یونیورسٹی سے جن بچوں کو اٹھایا گیا وہ افغانستان نہیں گئے، بلوچستان میں جو حالات ہیں وہ ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں،ابھی مالم جبہ میں جو ہوا یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے، موجودہ حالات میں آرمی اور سیکورٹی اداروں کے 3 سو سے زائد جوان شہید ہوگیے،

عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے کو ہدایت کی کہ آپ کے سینئر آفیشلز کی جو کمیٹی بنی تھی وہ آئے اور عدالت کو سمجھائے ، عدالت نے بند لفافے میں سر بمہر رپورٹ وزارت دفاع کے نمائندے کو واپس کر دی.جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آج ہم آرڈر کر رہے ہیں جن افراد کو کمیشن جبری گمشدہ ڈکلئیر کر چکا ان کی فیملی کے لئے جو آپ نے پالیسی بنائی ہے ان کے لئے پچاس پچاس لاکھ روپے کے چیک آئندہ سماعت پر لے کر آئیں،

جسٹس محسن اختر کیانی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کی کارکردگی پر برہم ہو گئے،کہا ایک ایک کیس میں کمیشن نے بیس بیس پروڈکشن آرڈرز کئے ہیں ،لوگوں کی آنکھوں میں لاپتہ افراد کمیشن دھول جھونک رہا ہے ،لکھا ہوا ہے جبری گمشدگی ہوئی پھر بھی آپ کے لوگ پروڈکشن آرڈرز پر عمل نہیں کر رہے ،مجھے سخت تکلیف ہوئی جو کمیشن کی رپورٹس میں نے پڑھی ہیں.یہ نظرثانی کا اختیار کمیشن کے پاس کہاں ہے میں نے پڑھا کہیں نظر نہیں آیا ، میرے آرڈر پر عمل ہو گا اگر نہیں ہو گا تو پھر مجھے یہاں بیٹھنے کی ضرورت نہیں .مجھے جبری گمشدہ افراد بازیابی کمیشن سے سنگین اختلافات ہیں، کمیشن ممبران کے پاس سپریم کورٹ کے حاضر جج کے اختیارات ہیں لیکن وہ کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہے، ایسے کمیشن کی کوئی ضرورت نہیں جس سے مسائل مزید بڑھ جائیں، ہمارے پاس کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواست آئی ہے،

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق جبری گمشدہ افراد بازیابی کمیشن میں 80 فیصد جبری گمشدہ افراد کے کیسز حل ہو چکے ہیں،عدالت نے کہا کہ اُن 80 فیصد لوگوں پر کیا گزر رہی ہو گی کبھی سوچا ہے؟ وہ عدلیہ سمیت ہر ادارے سے شدید نفرت کرتے ہونگے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کتنی تعداد ہو گی کتنے شہریوں کو ایسے رکھ سکتے ہونگے؟ اگر اے ٹی سی پر یقین نہیں تو پھر بنالیں ملٹری کورٹس،جتنا علاج کیا مرض بڑھ گیا ہے اس کا مطلب ہے علاج ٹھیک نہیں ہے ، لاپتہ افراد ایک حقیقت بن چکے ہیں

جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ یہ معاملہ ریاست نے حل کرنا ہے، کابینہ کے بھی سامنے رکھیں، جبری گمشدہ افراد کمیشن کو دوبارہ بحال کریں، دیکھیں اگر نئے لوگوں کو تعینات کیا جا سکے، ریکارڈ کے مطابق یہ کمیشن تو سالوں تک لواحقین کو ایک سماعت کا موقع بھی نہیں دے رہا،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے لارجر بنچ نے جبری گمشدہ افراد کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دیدیا

Shares: