پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما سلمان اکرم راجہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران آئینی ترمیم کے حوالے سے گہرے خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان ایک تاریک گھڑی سے گزر رہا ہے، جہاں لوگوں کو غیر قانونی طور پر لوٹنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آئینی ترمیم منظور ہو گئی تو ہر شخص کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔سلمان اکرم راجہ نے شیخ وقاص اکرم کے ساتھ پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ اس وقت ملک میں ایک سنگین صورتحال درپیش ہے۔ انہوں نے کہا، "یہ دعوت گناہ ہے کہ جاؤ اور لوٹو، آئینی ترمیم آ گئی تو ہر کسی کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حق مانگنے والے کو بھگتنا پڑے گا۔” ان کے اس بیان نے معاشرتی اور سیاسی دائرے میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، کیونکہ وہ آئینی اصلاحات کے ممکنہ اثرات پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے وضاحت کی کہ انہیں ان ترمیمات کی خاطر ووٹ درکار ہیں جو کہ پچاس سال پرانے قوانین میں تبدیلی کی بات کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو متاثر کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، "آئینی حقوق سپریم ہیں۔ یہ ترمیم کہتی ہے کہ کسی بھی بنیادی حق کو سلب کیا جا سکتا ہے، ملک کی حفاظت کی خاطر فون کو سنا جا سکتا ہے۔پی ٹی آئی کے رہنما نے مزید کہا کہ اگر آئینی ترمیم منظور ہو گئی تو عوام کے حقوق کا تحفظ مشکل ہو جائے گا۔ "ترمیم کے بعد جو بھی اپنے حقوق کا مطالبہ کرے گا، اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا،” انہوں نے تنبیہ کی۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ عدالتیں عوام کو ریلیف اور تحفظ فراہم کرتی ہیں، لیکن اگر کوئی معاملہ فوجی عدالتوں میں جائے تو ہائی کورٹ اس میں مداخلت نہیں کر سکے گی۔
سلمان اکرم راجہ نے ملٹری عدالتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملٹری کورٹ نوٹس یا کوئی کارروائی کرتی ہے تو ہائی کورٹ کچھ نہیں کرسکتی۔ "یہی وہ آئینی ترمیم اور پیکج ہے جس کی راہ ہموار ہو چکی ہے،” انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ ترمیم موجودہ سیاسی اور قانونی ڈھانچے کے لیے ایک خطرہ بن سکتی ہے۔اس پریس کانفرنس کے بعد، سلمان اکرم راجہ کے بیانات نے سیاسی حلقوں میں بحث و مباحثہ کو بڑھا دیا ہے۔ ان کے خدشات نے عوامی سطح پر آئینی حقوق اور قانون کے نفاذ کے حوالے سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے اس مؤقف سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ موجودہ سیاسی صورتحال اور آئینی تبدیلیوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی سیاسی عدم استحکام کی موجودہ حالت میں آئینی حقوق کے تحفظ کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔

Shares: