وفاقی حکومت نے اپنی رائٹ سائزنگ پالیسی کے تحت یومیہ اجرت (ڈیلی ویجز) پر کام کرنے والے ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے، جو کہ عوامی خدمات میں افرادی قوت میں کمی کی ایک بڑی کوشش کے تحت کیا جا رہا ہے۔ اس اقدام کا مقصد حکومتی اخراجات میں کمی اور کارکردگی میں بہتری لانا ہے، تاہم اس سے مختلف شعبوں میں ملازمت کرنے والے ہزاروں یومیہ اجرت ملازمین متاثر ہو رہے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ 30 ستمبر 2024 تک یومیہ اجرت پر کام کرنے والے تمام کارکنوں کی خدمات کو سرپلس پول میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان ملازمین کی خدمات اب مزید نہیں لی جائیں گی۔ نوٹیفکیشن میں مختلف وزارتوں اور ڈویژنز کے سربراہان کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے یومیہ اجرت والے ملازمین کو برطرف کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔نوٹیفکیشن میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ وزارتوں اور ڈویژنز سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس فیصلے کی روشنی میں اپنے ملازمین کی خدمات کو ختم کریں، جس کا مقصد حکومت کی رائٹ سائزنگ پالیسی کی کامیابی کو یقینی بنانا ہے۔
متاثرہ ملازمین کی صورتحال
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں متاثر ہونے والے یومیہ اجرت والے ملازمین کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ یہ ملازمین مختلف شعبوں میں کام کر رہے تھے، بشمول صحت، تعلیم، اور انتظامی امور، اور ان کی برطرفی سے ان کی معاشی حالت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بہت سے ملازمین نے اپنے حالات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے، کیونکہ یومیہ اجرت پر کام کرنا ان کے لیے واحد ذریعہ معاش ہے۔
حکومتی دعوے
حکومت کی جانب سے یہ مؤقف پیش کیا جا رہا ہے کہ یہ اقدامات ملک کے اقتصادی حالات کو بہتر بنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کی پینشنز میں اضافہ اور دیگر اخراجات کی بھرمار حکومت کے لیے ایک "بم” کی شکل اختیار کر چکی ہیں، جس کی روک تھام ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات ایک مستقل اور مستحکم معاشی نظام کی تشکیل کی جانب ایک اہم قدم ہیں۔
حکومتی فیصلے کے حوالے سے مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ کئی تجزیہ کاروں اور معاشی ماہرین نے اس اقدام کو عوامی خدمات کی کمی کا باعث قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ برطرفیاں عوامی خدمات کی فراہمی میں کمی لا سکتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان ملازمین کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کرے، تاکہ وہ معاشی مشکلات کا سامنا نہ کریں۔
وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ پالیسی کے تحت یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین کی برطرفی کا آغاز ایک ایسا اقدام ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ حکومتی دعوے اخراجات میں کمی اور کارکردگی میں بہتری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے سے متاثر ہونے والے ملازمین کی زندگیوں پر مہلک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت اس صورتحال کا کس طرح انتظام کرتی ہے اور متاثرہ ملازمین کے مسائل کا حل کیسے نکالتا ہے۔