منشی پریم چند

دو پرچے 'ہنس' اور 'جاگرُتی' اپنی ادارت میں جاری کیے
poet

منشی پریم چند

8 اکتوبر 1936: یوم وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منشی پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے سریواستَو تھا، آپ 31 جولائی 1880ء کو منشی عجائب لال کے ہاں موضع پانڈے پور، ضلع بنارس میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ آپ نے تقریباَ َ سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ پندرہ برس کی عمر میں شادی ہوگئی۔ ایک سال بعد والد کا… انتقال ہوگیا۔ پریم چند اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پورے گھر بار کا بوجھ آپ پر آن پڑا۔ فکرِ معاش نے زیادہ پریشان کیا تو لڑکوں کو ٹیوشن پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمۂ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ اسی دوران بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ پھر بی۔ اے کی تکمیل کر کے ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولز ہو گئے۔ 1921ء میں ملازمت کو خیرباد کہہ دیا اور لکھنے پڑھنے کے کام میں مصروف ہو گئے۔ بنارس میں اپنا ایک پریس بھی کھولا۔ دو پرچے ‘ہنس’ اور ‘جاگرُتی’ اپنی ادارت میں جاری کیے۔

پریم چند کو ابتدا سے ہی کہانیاں پڑھنے اور سننے کا شوق تھا اور یہی شوق چھوٹے چھوٹے افسانے لکھنے کا باعث بنا۔ ان کی باقاعدہ ادبی زندگی کا آغاز 1901ء سے ہوا جب انہوں نے رسالہ "زمانہ” کانپور میں مضامین لکھنے شروع کیے۔ اول اول مختصر افسانے لکھے اور پھر ناول، لیکن مختصرافسانہ نویسی کی طرح ناول نگاری میں بھی ان کے قلم نے چار چاند لگا دئیے۔ پریم چند کو اردو اورہندی دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے ناول اور افسانے کے علاوہ چند ایک ڈرامے بھی یادگار چھوڑے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے ‘آنندی’، ‘پریم پچیسی’، ‘پریم بیتسی’، ‘سوز وطن’، ‘زاد راہ’ اور ‘واردات’ ہیں۔ مجموعی طور پر پریم چند نے تین سو سے زیادہ کہانیاں لکھیں جو مختلف مجموعوں میں موجود ہیں۔ پریم چند اچھے مترجم بھی تھے۔ انہوں نے انگریزی سے کئی کتابیں ترجمہ کیں۔

پریم چند کے آرٹ کی عظمت کو ہر حلقے میں تسلیم کیا گیا۔ پریم چند پہلے ادیب ہیں جنہوں نے شہر سے نکل کر دیہاتی زندگی کے ساتھ رشتہ جوڑا۔ پریم چند کی زبان بہت آسان اور سادہ ہے جو کہانیوں کے تاثر کو بڑھا دیتی ہے۔

پریم چند مہاتما گاندھی کی تحریک سے متاثر تھے۔ وہ دل و جان سے ملک کی آزادی کے لیے لڑنا چاہتے تھے لیکن اپنی مجبوریوں کی بنا پر کسی تحریک میں عملی طور پر حصہ نہ لے سکے۔

8 اکتوبر 1936ء کو پریم چند بنارس میں انتقال کر گئے۔

Comments are closed.