پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے درمیان چھبیسویں مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے ایک بار پھر رابطہ ہوا ہے۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات کا امکان پیدا ہوگیا ہے، جس میں پی ٹی آئی کے وفد کے مولانا فضل الرحمان کے گھر پہنچنے کی توقع ہے۔ اس ملاقات میں پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم بھی شامل ہوگی، جو آئینی ترمیم کے مسودے پر بات چیت کرے گی۔ذرائع کے مطابق، پی ٹی آئی کا وفد آئینی ترامیم کے حوالے سے اپنی تجاویز اور خدشات پیش کرے گا، جس کے تحت دونوں جماعتوں کے درمیان ایک مفاہمت کی کوشش کی جائے گی۔ یہ ملاقات اس وقت کی جارہی ہے جب حکومت نے پارلیمان اور سینیٹ کے اجلاس 18 اکتوبر کو بلانے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں آئینی ترامیم کی منظوری کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
معلومات کے مطابق، مولانا فضل الرحمان نے مجوزہ آئینی ترامیم پر مشروط رضا مندی ظاہر کی ہے، جس کی تصدیق کرتے ہوئے ذرائع نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کے ساتھ جاری مذاکرات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ تاہم، جمیعت علماء اسلام (ف) کے سینیٹر اور قانونی ٹیم کے رکن کامران مرتضیٰ نے مولانا فضل الرحمان کی رضا مندی کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے، جو اس صورتحال کی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات میں کوئی پیشرفت ہوئی تو پی ٹی آئی نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ملاقات کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جمیعت علماء اسلام (ف) اور پیپلز پارٹی دونوں ہی آئینی ترامیم کے معاملے میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں، اور ان کی جانب سے مشترکہ موقف اختیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
اس تناظر میں، سیاسی حلقوں میں آئینی ترامیم کی اہمیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے، جو نہ صرف سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہیں بلکہ ملک کی جمہوریت کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے بھی اہم ہیں۔ پی ٹی آئی اور جمیعت علماء اسلام (ف) کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی اختلافات کو ختم کرکے ملکی مفاد میں اکٹھا ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔آئینی ترامیم کے مسودے کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئی ہیں، مگر اگر دونوں جماعتوں کے درمیان یہ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔ سیاستدانوں کی یہ کوششیں عوام کی امیدوں اور توقعات کے عین مطابق ہیں کہ وہ ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

Shares: