ایف بی آر کی تحقیقات میں سیلز ٹیکس چوری کا بھانڈا پھوٹ گیا

fbr fianace

وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے جمعرات کو ایف بی آر ہیڈکوارٹرز میں ایک پریس کانفرنس کے دوران چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال کے ساتھ مختلف صنعتی شعبوں میں سیلز ٹیکس چوری کی تحقیقات کی تفصیلات کا اعلان کیا۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹیکس چوری اور فراڈ کی وجہ سے ملک میں 3,400 ارب روپے کا ٹیکس گیپ موجود ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ ملک میں رجسٹر ہونے کے اہل تین لاکھ مینوفیکچررز میں سے صرف 14 فیصد نے ہی رجسٹریشن کرائی ہے، جس سے سیلز ٹیکس چوری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کئی رجسٹرڈ کمپنیاں بھی ٹرن اوور کی غلط رپورٹنگ، زائد ان پٹ ٹیکس کا دعویٰ کرنے اور جعلی رسیدیں استعمال کرنے میں ملوث ہیں۔ پاکستان میں سیلز ٹیکس بہترین بین الاقوامی طریقہ کار کے مطابق ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی صورت میں جمع کیا جاتا ہے۔ اس نظام کے تحت کاروباری اداروں پر بھروسہ کیا جاتا ہے کہ وہ خریداروں سے سیلز ٹیکس وصول کریں گے، لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ اس اعتماد کو بڑے پیمانے پر مجروح کیا جا رہا ہے۔

وزیر خزانہ نے آئرن اینڈ اسٹیل، سیمنٹ، مشروبات، بیٹری اور ٹیکسٹائل کے شعبوں سے متعلق تحقیق کے نتائج کا بھی ذکر کیا۔ آئرن اینڈ اسٹیل کے 33 بڑے کاروباری ادارے 29 ارب روپے کے زائد ان پٹ ٹیکس کا دعویٰ کرتے ہوئے سیلز ٹیکس چوری میں ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ ادارے کل فروخت کے 50 فیصد سے زیادہ حصہ کی نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ جعلی ان پٹ ٹیکس کا بڑا ذریعہ سکریپ میٹل اور کوئلے کی خریداری ہے۔ بیٹری سیکٹر کے 6 کارخانہ داروں کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شعبے کا ایک بڑا حصہ 11 ارب روپے سے زائد ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کا دعویٰ کر رہا ہے، جو کہ اس صنعت کے بہترین طریقوں سے زیادہ ہے۔ سیمنٹ کے 19 کارخانوں نے مالی سال 23-24 میں 18 ارب روپے سے زائد ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کا دعویٰ کیا ہے۔ مشروبات تیار کرنے والے 16 کارخانوں میں سے کچھ نے مالی سال 24-2023 میں 15 ارب روپے سے زائد ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کا دعویٰ کیا ہے۔ ٹیکسٹائل کے 228 کارخانوں کے بارے میں کی گئی تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ ان میں سے کئی نے 169 ارب روپے سے زائد ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کا دعویٰ کیا ہے۔

وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کی وجہ سے گزشتہ مالی سال کے دوران گرفتاریوں اور فوجداری مقدمات کے اندراج میں اضافہ کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں مالی سال 24-2023 میں جعلی ان پٹ ٹیکس کے دعووں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ بڑے پیمانے پر چوری اب بھی جاری ہے اور اس چوری سے نمٹنے کے لیے مزید سخت انفورسمنٹ کے اقدامات کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے یہ بھی بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے مختلف شعبوں میں ٹیکس فراڈ کے ثبوت اکٹھے کر لیے ہیں، جن میں بیٹری سیکٹر کے 11 کیسز، آئرن اینڈ اسٹیل کے 897 کیسز اور کوئلے کی خریداری پر جعلی کلیمز کے 253 کیسز شامل ہیں۔ سیلز ٹیکس فراڈ کی کل رقم 227 ارب روپے ہے۔

انہوں نے کہا کہ بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جو آنے والے ہفتوں میں عمل درآمد کیا جائے گا۔ سیلز ٹیکس فراڈ ایک فوجداری جرم ہے اور قانون کے تحت اس کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی، جس میں 10 سال تک قید اور بھاری جرمانہ شامل ہو سکتا ہے۔ انفرادی ملکیت کی صورت میں کاروبار کے مالکان، کمپنیوں کے ڈائریکٹرز، سی ای اوز، سی ایف اوز اور دیگر مجاز افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔یہ تحقیقات اور اس کے نتائج واضح کرتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیکس نظام میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی موجود ہے، جس کا سدباب کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیر خزانہ کی جانب سے کی جانے والی یہ پریس کانفرنس ٹیکس چوری کے خلاف حکومتی عزم کا مظہر ہے۔

Comments are closed.