نئی دہلی: بھارت نے حالیہ سفارتی تنازع کے پیش نظر کینیڈا سے اپنے ہائی کمشنر اور دیگر سفارتکاروں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب کینیڈا نے سکھ علیحدگی پسند ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی تحقیقات میں بھارتی اہلکاروں کے شامل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ نے اس صورتحال کے تناظر میں نئی دہلی میں کینیڈا کے ناظم الامور کو طلب کیا۔ بھارتی حکام نے واضح کیا ہے کہ انہیں کینیڈا کی موجودہ حکومت پر بھارتی سفارتکاروں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے حوالے سے مکمل اعتماد نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارتی حکومت نے فیصلہ کیا کہ تمام سفارتکاروں کو فوری طور پر واپس بلایا جائے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے اس حوالے سے کہا، "ہمیں کینیڈا کے موجودہ حکام پر اعتماد نہیں ہے کہ وہ ہمارے سفارتکاروں کی حفاظت کو یقینی بنا سکیں گے۔ اس لیے ہم نے انہیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔” مزید برآں، بھارت نے ہردیپ نجر کے قتل کے معاملے میں کینیڈا کے فیصلے پر جوابی اقدامات اٹھانے کا حق بھی محفوظ رکھا ہے۔
یہ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہوگئی جب کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے جی20 اجلاس کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے دوران ہردیپ نجر کے قتل میں بھارتی ایجنٹس کے ممکنہ طور پر ملوث ہونے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ ٹروڈو نے کہا، "ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بھارتی ایجنٹ اس واقعے میں شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ بیان بین الاقوامی سطح پر کشیدگی کا باعث بن گیا ہے، خاص طور پر جب کہ کینیڈا میں سکھ کمیونٹی کی جانب سے بھارت کے خلاف ردعمل دیکھا جا رہا ہے۔ہردیپ سنگھ نجر، جو سکھ علیحدگی پسندوں کے ایک اہم رہنما تھے، کو 18 جون 2023 کو کینیڈا کے ایک گوردوارے کے سامنے قتل کیا گیا تھا۔ ان کے قتل کے بعد کینیڈا میں سکھ کمیونٹی کے ردعمل کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا ہے۔
اس واقعے کے بعد بھارت نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنی خودمختاری اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔ اس تنازعے کے نتیجے میں عالمی سطح پر بھارت اور کینیڈا کے تعلقات میں مزید کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، اور دونوں ممالک کے درمیان مستقبل میں بات چیت کی راہیں بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔کینیڈا میں سکھ کمیونٹی کی جانب سے بھارتی حکومت کے خلاف بڑھتے ہوئے مظاہروں اور بھارت کے خلاف بڑھتی ہوئی تنقید نے اس معاملے کو مزید سنجیدہ بنا دیا ہے، اور اس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کی نئی لہر متوقع ہے۔

Shares: