اسلام آباد: حکومت کو سینیٹ سے 26ویں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہے۔ اس ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ) سے دو تہائی اکثریت یعنی 64 ووٹوں کی ضرورت ہے۔ حکومتی اتحاد اس اہم مرحلے پر مجموعی طور پر 63 ووٹ حاصل کر چکا ہے لیکن اب بھی ایک ووٹ کی کمی کا سامنا کر رہا ہے، جس کی وجہ سے آئینی ترمیم کی منظوری کا عمل تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔سینیٹ میں حکومتی بینچوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے 4، اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے 3 سینیٹرز موجود ہیں۔ ان جماعتوں کے علاوہ حکومت کو 4 آزاد سینیٹرز، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے 3، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ قاف کے ایک، ایک رکن کی حمایت بھی حاصل ہے، جس سے مجموعی طور پر 59 ووٹ بن رہے ہیں۔
حکومت کے نمائندوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی ف) کے سینیٹرز کی حمایت ملنے کے بعد یہ تعداد 64 ہو جائے گی، جو آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے درکار ووٹوں کی تعداد ہے۔ تاہم، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی آئینی قواعد کے تحت ووٹ نہیں ڈال سکیں گے، جس کے باعث حکومتی ووٹوں کی تعداد 63 رہ جائے گی، اور اسے ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہو گا۔26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت ملک میں بعض اہم قانونی اور آئینی تبدیلیاں لانا چاہتی ہے۔ اس ترمیم کی منظوری حکومت کے لیے اہم سیاسی کامیابی ہوگی، جس سے حکومت کی آئینی پوزیشن مزید مضبوط ہو سکتی ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں حکومت کو ایک ووٹ کی کمی کے باعث سنجیدہ مشکلات کا سامنا ہے۔حکومتی ذرائع کے مطابق حکومت کی پوری کوشش ہے کہ وہ سینیٹ میں موجود دیگر آزاد سینیٹرز یا چھوٹی جماعتوں سے رابطے کر کے اس ایک ووٹ کی کمی کو پورا کرے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی نمائندے اس معاملے پر تیزی سے رابطے کر رہے ہیں تاکہ سینیٹ میں مطلوبہ ووٹوں کی تعداد پوری کی جا سکے اور آئینی ترمیم منظور ہو سکے۔