سابق وفاقی وزیر خزانہ اور عوام پاکستان پارٹی کے رہنما مفتاح اسماعیل نے پی آئی اے کی نجکاری کے عمل پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک صوبہ وفاق سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) خرید لے، کیونکہ ان کے مطابق حکومت کے کاروبار چلانا بنیادی طور پر حکومت کا کام نہیں ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے وضاحت کی کہ پی آئی اے کی نجکاری کے عمل میں ایسی شرائط رکھی گئیں جن کی وجہ سے ممکنہ خریدار سامنے نہیں آئے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ چار سنجیدہ گروپ پی آئی اے کی بڈنگ میں حصہ لینا چاہتے تھے، لیکن حکومت کے غیر حقیقی مطالبات نے اس عمل کو متاثر کیا۔مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ صوبوں کا بنیادی کام تعلیم، صحت، قانون و انصاف اور عوام کو سہولیات فراہم کرنا ہے، اور وہ وفاق سے مالی مدد لیتے ہیں، جبکہ ایک پیسہ بھی ٹیکس جمع نہیں کرتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں کوئی حکومت ایئرلائن نہیں چلاتی، اور ان کے خیال میں کوئی بھی صوبہ وفاق سے ایئرلائن خریدنے کی حالت میں نہیں ہے۔
پی آئی اے کی نجکاری کے چیلنجز
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی مالی حالت اب وفاقی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ بولی کے عمل کے باوجود، نجکاری کا یہ عمل ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ حالیہ بولی میں پی آئی اے کی قیمت صرف 10 ارب روپے کی پیشکش کی گئی، جبکہ حکومت نے اس کی قیمت 85 ارب روپے سے زیادہ مقرر کی تھی۔ خیبرپختونخوا اور پنجاب کی حکومتوں نے پی آئی اے کو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، لیکن وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے اس معاملے پر اپنا موقف پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کو چلانا نہیں بلکہ فروخت کرنا ان کی ذمہ داری ہے، لیکن وہ اونے پونے داموں اس کی فروخت کے حق میں نہیں ہیں۔ عبدالعلیم خان نے مزید کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کا سیٹ اپ نگراں حکومت کے دور میں بنایا گیا تھا، اور ان لوگوں کو خود احتسابی کی ضرورت ہے جنہوں نے پی آئی اے کی موجودہ صورتحال کو جنم دیا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ نجکاری کے لیے نئے فریم ورک پر کام کیا جائے گا، جس سے کسی بھی ممکنہ خسارے کی صورت حال سے بچا جا سکے گا۔