ملتان، جو پاکستان کے جنوبی پنجاب کا اہم ترین شہر ہے، حالیہ دنوں میں شدید فضائی آلودگی کا شکار ہو گیا ہے۔ ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) نے 1900 کی خطرناک سطح کو پار کر لیا ہے، جس نے اسے پاکستان کا سب سے آلودہ شہر بنا دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی شہریوں کی صحت پر نہایت مہلک اثر ڈال سکتی ہے، خاص طور پر سانس، پھیپھڑوں، دل کی بیماریوں اور آنکھوں کی حساسیت کا شکار افراد کے لئے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
فضائی آلودگی کی صورتحال صرف ملتان تک محدود نہیں ہے۔ لاہور جو پہلے ہی آلودگی کے مسائل سے جوجھ رہا ہے، پاکستان کا دوسرا آلودہ ترین شہر قرار پایا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں بھی دھند اور اسموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں، جس سے روز مرہ کی زندگی شدید متاثر ہو رہی ہے۔
دھند اور اسموگ کے باعث موٹروے پر کئی اہم مقامات کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ موٹروے ایم 1 چارسدہ سے اکبرپورہ تک، موٹروے ایم 2 لاہور سے کوٹ سرور تک، موٹروے ایم 3 سمندری سے درخانہ اور ایم 4 پنڈی بھٹیاں سے عبدالحکیم تک بند کر دی گئی ہیں۔ اسی طرح، موٹروے ایم فائیو پر شیر شاہ سے جھانگڑہ تک اور لاہور سیالکوٹ موٹروے کو بھی ٹریفک کیلئے بند کیا گیا ہے۔
اسموگ سے نمٹنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب بھر میں رات 8 بجے تمام بازار بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ مزید برآں، اتوار کے روز پنجاب بھر میں تمام بازار مکمل طور پر بند رہیں گے۔ ان اقدامات کا مقصد اسموگ کے اثرات کو کم کرنا اور شہریوں کی صحت کو محفوظ بنانا ہے۔
حکومتی اقدامات کے تحت پنجاب کے مختلف شہروں میں اسموگ سے متاثرہ چار ڈویژنز کے 18 اضلاع میں کھیلوں کے میدان، عجائب گھر اور چڑیا گھر سمیت تمام تفریحی مقامات 17 نومبر تک بند کر دیے گئے ہیں۔ لاہور والڈ سٹی اتھارٹی نے بھی 17 نومبر تک تمام سیاحتی اور تفریحی پروگرام اور تقریبات معطل کر دی ہیں۔
شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسموگ کے مسئلے کے مستقل حل کیلئے فوری اور سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔ عوام کا کہنا ہے کہ صنعتوں، گاڑیوں اور دھان کی فصل کے باقیات جلانے سے ہونے والی آلودگی کو روکنے کے لئے سخت قوانین اور ان کے نفاذ کی اشد ضرورت ہے۔ ماہرینِ ماحولیات کے مطابق آلودگی پر قابو پانے کے لئے درختوں کی شجر کاری، متبادل ایندھن کا استعمال اور صنعتوں میں جدید آلات کی تنصیب جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔