بھارت میں ہندوتوا کی سیاست، ہندو دھرم پر نظریاتی حملے
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
ہندوتوا کے نظریے کو 1920 کی دہائی میں ساورکر نے متعارف کرایا تھا اور اس کے بعد سے یہ بھارت کی سیاست میں ایک اہم قوت بن چکا ہے۔ بھارت میں ہندوتوا کا نظریہ ایک سیاسی حکمت عملی کے طور پر سامنے آیا ہے جس کا ہندو دھرم کے اصولوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ہندوتوا کو اکثر ہندو مت سے جوڑ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ ہندو دھرم جو دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں شمار ہوتا ہے، تنوع، شمولیت اور عدم تشدد پر مبنی ہے جبکہ ہندوتوا ایک قوم پرستانہ سیاسی نظریہ ہے جس کا مقصد ہندو مت کی مخصوص تشریح کو فروغ دینا اور بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کا خواب دیکھنا ہے۔
ہندو مت کے بنیادی اصول محبت، امن، ہم آہنگی اور ہر انسان کی روحانی آزادی پر مبنی ہیں۔ اس میں مختلف آرا اور روایات کے لیے کھلی گنجائش ہے، اور اہنسا (عدم تشدد)کو زندگی کے بنیادی اصول کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس ہندوتوا کی سیاست نے ہندو دھرم کو تعصب، نفرت اور عدم برداشت کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ ہندوتوا کے پیروکار مذہب کو ایک سخت نظریاتی اصول کے تحت دیکھتے ہیں جو بھارت کی اقلیتوں خصوصا مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف شدید تعصب پر مبنی ہے۔ہندوتوا کے زیر اثر، تاریخی اور مذہبی کتب کی تشریحات کو محدود کر کے مخصوص سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد بھارت میں ایک یکساں ہندو شناخت بنانا ہے، جس سے اقلیتوں اور مختلف روایات کو حاشیے پر دھکیلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہندو مت کے تنوع اور برداشت کو پس پشت ڈال کر، ہندوتوا کے نظریے نے معاشرتی تفرقہ اور مذہبی کشیدگی کو ہوا دی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کی حکومت اور خاص طور پر نریندر مودی کے دور اقتدار میں ہندوتوا کے نظریے کو زیادہ شدت کے ساتھ فروغ دیا گیا۔ اس کی مثالیں گجرات کے فسادات، ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام اور رام مندر کی تعمیر کے واقعات ہیں۔ مودی حکومت نے ہندوتوا کی سیاست کو عوامی حمایت کے لیے استعمال کیا، جس سے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف تشدد اور نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ ہوا۔2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی تقاریر میں 62 فیصد اضافہ ہوا۔ ان واقعات میں نہ صرف مسلمانوں کی جان و مال کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ انہیں سیاسی مفادات کے لیے استعمال بھی کیا گیا۔ سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر ہندوتوا کی سیاست نے عام شہریوں کے ذہنوں پر اثر ڈالا جس کے نتیجے میں بھارت کی سیکولر بنیادیں کمزور ہوئیں۔
ہندوتوا کے نظریے نے بھارت میں جمہوری اقدار اور سماجی ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ مذہب کو سیاست کا اکھاڑا بنا کر حکومت نے اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ رویہ ترک کر دیا ہے۔ گا ئورکشا، لو جہاد، اور تبدیلی مذہب کے نام پر تشدد کے واقعات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاستی ادارے اور عدلیہ بھی ان واقعات میں اکثر خاموش تماشائی بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بھارت میں ہندو انتہاپسندی کے بڑھتے رجحانات نے مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مسلمانوں کے کاروبار، جائیدادیں اور عبادت گاہیں مسلسل نشانہ بن رہی ہیں۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد سے مساجد کو مندر میں تبدیل کرنے کی ایک مخصوص مہم نے مسلمانوں کو مزید حاشیے پر دھکیل دیا ہے۔مودی حکومت کے دور میں گجرات فسادات، دہلی کے حالیہ واقعات اور متعدد دیگر واقعات بھارت میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی مثالیں ہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی تشویش کے باوجود، مودی حکومت کے اقدامات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ رویہ بھارت کی جمہوریت کو جھوٹا ثابت کر رہا ہے اور اقلیتوں کی زندگیوں کو مزید مشکلات کا شکار کر رہا ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کی سیاست اور اس کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تعلیم، تنقیدی مکالمے اور سیکولر قدروں کی ترویج ضروری ہے۔ ہندو دھرم کے قدیم فلسفے کو اجاگر کرنا، جس میں تنوع اور برداشت کی قدریں شامل ہیں، ہندوتوا کے نظریے کی نفرت انگیزی سے نجات کا راستہ فراہم کر سکتا ہے۔ عالمی برادری کو بھی اس معاملے پر سخت نوٹس لیتے ہوئے بھارت کے ساتھ مثر سفارتی اور اقتصادی دبا بڑھانے کی ضرورت ہے۔