بے حیا دوا اور پیپ سمیر ٹیسٹ ، تحریر:ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
ڈاکٹر میرے شوہر خوش نہیں ہیں!“
تھکا ہوا لہجہ، چالیس کے پیٹے میں خوش شکل اداس صورت خاتون —-
سو ہم نے بات اڑانے کے لئے ہنس کے کہا،فکر نہ کیجیے، شوہروں کا یہی وطیرہ ہوتاہے، کچھ بھی کر لو بھلے جان دے دو، بھلے مانس خوش ہوتے ہی نہیں“
وہ ہولے سے مسکرا دیں۔
”اب بتا دیجیے، کیوں ناراض رہتے ہیں وہ“
وہ ڈاکٹر، پچھلے پانچ چھ ماہ سے ہم جب بھی—وہ جب بھی ——“وہ جھینپ کے رک گئیں-
جی، جب بھی۔ کہیے؟“
ہم نے انہیں بات مکمل کرنے کا حوصلہ دیا
” جی، پچھلے کچھ عرصے سے ہم جب بھی ہم بستری کرتے ہیں، ان کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے عضو پہ تھوڑا سا خون لگ گیا ہے۔ میرے جسم پہ بھی کچھ خون کے دھبے ہوتے ہیں، ساتھ میں درد بھی بہت ہے۔ میں بہت پریشان ہوں ڈاکٹر“
” پریشان نہ ہوئیے۔ آپ یہ بتائیے کہ آپ نے پہلے کبھی اپنا پیپ سمیر ( pap smear ) کروایا؟“ ہم نے پوچھا
جی مجھے علم نہیں کہ یہ کیا ہوتا ہے؟“ وہ بولیں۔
” یہ ایک ٹیسٹ ہے جو رحم کے منہ یعنی سروکس ( cervix) سے لیا جاتا ہے۔ تیس برس کی عمر کے بعد ہر خاتون کو یہ ٹیسٹ کروانا چاہیے کیونکہ چھاتی کے کینسر کے بعد سب سے زیادہ شرح سروکس کے کینسر کی ہے اور اکثر اوقات کینسر ہونے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ یہ ٹیسٹ کینسر شروع ہونے سے پہلے ہی بتا دیتا ہے کہ سروکس کے سیل نارمل نہیں رہے، سو ضرورت ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جائیں“
ہم نے تفصیل سے انہیں سمجھایا۔
”یہ ٹیسٹ آپ کیسے لیں گی؟“
وہ کچھ شش و پنج میں مبتلا تھیں۔
”آپ کے رحم کے منہ یعنی سروکس کا معائنہ —-پھر ایک برش کی مدد سے چھوتے ہوئے اس کی سطح سے کچھ سیلز لے کر گلاس سلائیڈ پہ منتقل — بس پھر لیبارٹری والے جانیں اور ان کا کام“
ہم نے انہیں دلاسا دیتے ہوئے وضاحت کی۔
”بہت آسان سا کام ہے، آپ کو بالکل تکلیف نہیں ہو گی“
وہ خوفزدہ نظر آتی تھیں مگر ہمارے سمجھانے بجھانے پہ معائنے کے لئے راضی ہو گئیں۔
سروکس صحت مند حالت میں نہیں تھا، ایسے لگتا تھا کہ انہیں کافی مرتبہ وجائنل انفیکشن رہ چکی ہے۔ ہم نے پیپ سمیر لیا اور انہیں نتیجے کے ساتھ آنے کے لئے کہا۔
کچھ دنوں بعد پیپ سمیر کی رپورٹ آ گئی اور رپورٹ خوش آئند نہیں تھی۔ کچھ ابنارمل قسم کے سیلز دیکھے گئے تھے جو متقاضی تھے کہ مزید ٹیسٹ کیے جائیں۔ اگلا مرحلہ سروکس کو ایک مائکرو سکوپ ( colposcope) نامی مشین کی مدد سے دیکھنا اور متاثرہ حصے کی بائیوپسی لینا تھا۔
طریقہ کار پہلے جیسا ہی تھا، کاؤچ پہ مریض کو لٹا کر اندرونی اعضائے مخصوصہ کو دیکھ کر بائیوپسی لینا۔ اس عمل میں مریض کو کسی بے ہوشی کی ضرورت نہیں پڑتی اور بائیوپسی لینا زیادہ تکلیف دہ امر نہیں ہوتا۔ درد کی شکایت میں پیراسٹامول دینا ہی کافی رہتا ہے۔
Colposcopy کے ساتھ بائیوپسی لیتے ہوئے بھی سروکس صحتمند حالت میں نظر نہیں آتا تھا۔بائیوپسی کی رپورٹ نے وہی کہا جو ہمارا شک تھا یعنی سروکس کینسر سے پہلے والی سٹیج پہ پہنچ چکا تھا۔ سروکس کے سیلز کا رجحان کینسر کی طرف بڑھنے کو CIN یا carcinoma in situ کہا جاتا ہے۔
خاتون کو رزلٹ سے آگاہ کیا گیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں، ڈاکٹر میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، اب کیا ہو گا؟
”روئیے نہیں، ابھی کینسر شروع نہیں ہوا۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو ہم بستری کے دوران خون آنے والی علامت شروع ہوئی اور آپ نے اس کے بعد گائناکالوجسٹ کے پاس آنے کا فیصلہ بھی کیا۔ دعائیں دیجیے اپنے شوہر کو، جنہیں خوش کرنے کے لئے آپ نے کم ازکم اس علامت پہ کان تو دھرا“
ہم مسکرا کے بولے۔
”اب کیا کرنا چاہیے؟“ وہ فکرمندی سے بولیں۔
”دیکھیے، پہلا حل تو یہ ہے کہ ہم رحم کا منہ یعنی سروکس کے ایک حصے کو کاٹ کو نکال دیں۔ اس کے لئے دو تین طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ( Cone biopsy اور LLETZ) ۔
یہ آپریشن ویجائنا کے راستے کیا جائے گا اور بے ہوشی کے عالم میں ہو گا۔ لیکن اس کے بعد بھی آپ کو وقفے وقفے سے پیپ سمیر کرواتے رہنا ہو گا کہ کوئی بچا کھچا سیل کہیں کسی خرابی کا باعث تو نہیں بن رہا ”
”اور دوسرا حل؟“
”جی دوسرا حل یہ ہے کہ آپ رحم ہی آپریشن کے ذریعے نکلوا دیں۔ اس صورت میں نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ ہمیشہ کے لئے رحم اور سروکس کے کینسر کے خطرے سے نجات“
”ڈاکٹر میرا خیال یہ ہے کہ میں دوسرے حل کے لئے زیادہ مطمئن رہوں گی“
بصد شوق“
یہ پیپ سمیر کی کہانی ہمارے لئے تو روزمرہ کی بات ہے لیکن آپ تک پہنچانے کا خیال یوں آیا جب ہم نے کچھ قریبی دوستوں سے پوچھا کہ کیا انہوں نے کبھی پیپ سمیر کروایا ہے اور سب کو ہی پیپ سمیر سے بے خبر پایا۔ پھر ہم نے اپنی بہنوں سے دریافت کیا تو کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔ ہم پہ تو بجلی ہی گر پڑی، چراغ تلے اندھیرا اسی کو تو کہتے ہیں۔
پیپ سمیر کا سہرا ایک یونانی ڈاکٹر Georgios Papanikolaou کے سر بندھتا ہے جس نے سیلز کی مدد سے کینسر کو پہچاننے کا طریقہ دریافت کیا اور اسی لئے اس ٹیسٹ کو پیپ سمیر پکارا گیا۔
جان لیجیے کہ پیپ سمیر تیس برس کی عمر سے لے کر پینسٹھ برس کی عمر تک ہر تین برس کے وقفے سے کیا جاتا ہے۔ اگر کبھی کسی مرحلے میں کوئی ابنارمیلٹی ملجائے تو باقی مراحل کی باری آتی ہے۔
پیپ سمیر کے ساتھ HPV وائرس کا ٹیسٹ بھی کیا جانا چاہیے کہ یہ موذی کینسر کے اسباب میں سے ایک ہے۔عورت کے جسم کو رگیدنے اور اس پہ انواع و اقسام کی مرضی منطبق کرنے کا کام عورت مارچ کے حوالے سے بخوبی کیا گیا ہے۔ مگر اس جسم کی دیکھ پرداخت کا مسئلہ چونکہ کسی اور کا نہیں، صرف عورت کا ہے سو ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری ہم نفس ان تکالیف سے ضرور بچ جائے جو آگہی نہ ہونے کی وجہ سے اسے آن گھیرتی ہیں۔بات نکلی ہے تو human papilloma virus کی کتھا بھی سنائے دیتے ہیں۔
“کوئی پوچھے ان نگوڑوں سے، کیوں ہم سے بار بار کہتے ہو کہ ہم اپنی بچیوں کو یہ ویکسین لگوائیں۔ یہ تو بنائی ہی موئی گوریوں کے لئے گئی ہے جو چھوٹی عمر میں ہی درجنوں بوائے فرینڈ رکھ چھوڑتی ہیں۔ اگر شادی کریں بھی تو بھلا ایک شادی تک محدود کہاں رہتی ہیں۔ تو انہیں تو ضرورت ہوئی نا۔ اب ہماری بچیاں یہ بوائے فرینڈ شرینڈ کیا جانیں۔ جہاں اماں ابا بیاہیں گے، چلی جائیں گی اور وہاں سے مر کے ہی نکلیں گی۔ پھر کیا ضرورت اس ویکسین کی؟ خواہ مخواہ پیسے کا ضیاع۔ بس بی بی یہ بتا دو کہ یہ بیماری ہماری طرف کی بچیوں کو تو نہیں ہوتی نا“
وہ خاتون ہمیں ایک تقریب میں ملی تھیں اور بات کرونا کی ویکسین سے شروع ہو کے ایک دوسری ویکسین تک آن پہنچی تھی۔ وہ اپنی بچیوں کے سکول سے بھیجی گئی معلومات پہ شاکی تھیں۔ جو بات انہیں ان کا ذہن سمجھاتا تھا، وہ ہم ماننے سے انکاری تھے اور جو ہم سمجھاتے تھے، ان کا دل شد و مد سے جھٹلاتا تھا۔
”جی، یہ بیماری ہماری طرف کے مرد و عورت میں بھی بہت عام ہے“ ہم نے کہا۔
ارے وہ کیسے؟ دیکھو یہ تو ہم بستری سے ایک دوسرے کو منتقل ہوتی ہے نا“
وہ چمک کے بولیں،
جی ہاں“
”اے نوج بی بی کچھ عقل کو ہاتھ ڈالو۔ جب ہم بستری ہی میاں بیوی کے درمیان ہو گی تو کہاں سے موا ٹپکے گا وائرس؟“
”یہی تو مصیبت ہے کہ گھر سے باہر بھی کافی بستر پائے جاتے ہیں“
ہم زیر لب بڑبڑائے،
کیا کہا؟“
”جی، حقیقت یہی ہے کہ یہ وائرس ہم بستری سے ہی ایک دوسرے کو منتقل ہو کر بیماری پھیلاتا ہے۔ بیماری تو مرد و عورت دونوں کو ہو سکتی ہے لیکن بیماری کے نتیجے میں کینسر کا شکار عورت بنتی ہے۔ بچیوں کو ویکسین لگوانے کے لئے اس لئے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ خود کسی غیراخلاقی گراوٹ میں مبتلا نہ بھی ہوں، تب بھی وہ کینسر کا شکار ہو سکتی ہیں اگر ان کا شوہر گھر سے باہر جنسی تعلقات سے شغف رکھتا ہو“ ہم نے چڑ کر کہا۔
صاحب، کرونا وائرس سے اور کچھ ہوا ہو یا نہیں، ہر ذی شعور یہ ضرور سمجھ گیا ہے کہ وائرس کی ہلاکت خیزی کیا ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک وائرس Human papiloma virus کے نام سے پایا جاتا ہے جس کا نشانہ کرونا وائرس کی طرح گلا یا پھیپھڑے نہیں بلکہ مرد و عورت کے جنسی اعضا ہوا کرتے ہیں۔
یہ انفیکشن مرد سے عورت، عورت سے مرد، مرد سے مرد اور عورت سے عورت کو بذریعہ جنسی تعلقات منتقل ہوتی ہے۔ بعض دفعہ وائرس کوئی علامات پیدا نہیں کرتا لیکن بہت سے مریضوں میں چھوٹی چھوٹی لحمیاتی پھنسیاں نکل آتی ہیں جنہیں وارٹس ( warts ) کہا جاتا ہے۔ مرد کے بیرونی جنسی اعضا اور عورت کے بیرونی اور اندرونی جنسی اعضا پہ ان پھنسیوں کا موجود ہونا HPV انفیکشن کا ثبوت ہے۔
وائرس زیادہ تر جنسی کاروبار میں ملوث افراد میں پایا جاتا ہے اور وہیں سے مختلف لوگوں میں منتقل ہوتا ہے۔ HPV کی منتقلی کسی اور طریقے سے ممکن نہیں۔ لیکن لوگ اپنی تسلی کے لئے بہت سی کہانیاں گھڑ لیتے ہیں۔
ہمیں ایک دفعہ ایک خاتون ملیں، جن کے شوہر اس وائرس کا شکار ہونے کے بعد قسمیں کھا کھا کے انہیں یقین دلانے کی کوشش کرتے تھے کہ یہ انفیکشن ہوٹل کے تولیوں کے استعمال سے ہوئی ہے۔ کچھ اور کہانیوں میں شوہروں نے دوستوں کے استعمال شدہ زیر جامے کو غلطی سے پہن لینے پہ مورد الزام ٹھہرایا۔
جب اس طرح کی توجیہہ کے بعد کوئی ہماری رائے جاننے کی کوشش کرتا ہے توہم چپ رہے، ہم ہنس دیے، منظور تھا پردہ تیرا کی تصویر بن جایا کرتے ہیں۔
ان وارٹس کا علاج لیزر یا بجلی کے ذریعے کیا جاتا ہے جہاں ان پھنسیوں کو جلایا جاتا ہے۔ یہ پھنسیاں ایک دفعہ جلانے سے ختم نہیں ہوتیں سو یہ عمل کئی دفعہ دہرانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
خواتین کو اگر یہ انفیکشن حمل کے دوران ہو جائے تو طبعی زچگی کے نتیجے میں انفیکشن نوزائیدہ کو منتقل ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔اس انفیکشن کا سب سے بڑا خطرہ خواتین میں رحم کے منہ سروکس ( cervix) کا کینسر ہے جو وائرس کی ایک خاص قسم HPV 16 اور HPV 18 کا شکار بنتی ہیں۔ کینسر کے ستر فیصد مریضوں میں سبب HPV ہی ہوتا ہے۔
جس ویکسین کا ہم نے شروع میں ذکر کیا وہ انہی دو قسموں سے بچنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ سروکس کے کینسر سے بچنے کے لئے بچیوں کو یہ ویکسین گیارہ سے بارہ برس کی عمر میں لگائی جاتی ہے۔
بچیوں کو اوائل شباب میں ویکسین لگانے کی وجہ محض یہ ہے کہ نوعمری میں ویکسین لگانے سے اس کی افادیت زیادہ ہوتی ہے اور کسی بھی واسطے سے انفیکشن منتقل ہونے کا تحفظ تمام عمر رہتا ہے۔
ابتدا میں مسلمان خاندانوں میں اس ویکسین کے خلاف کافی مزاحمت یہ کہہ کر کی گئی کہ بحیثیت مسلمان ہمارے بچے کہاں اس نوعیت کے جنسی تعلق میں مبتلا ہوا کرتے ہیں؟ یا یہ تو بچوں اور بچیوں کو مزید شہ دینے والی بات ہے۔سوچنے والی بات محض یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہمارے معاشرے میں بے شمار افراد اس انفیکشن کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟جواب سننے کے لئے ہمارا منہ نہ کھلوائیے کہ گائناکالوجسٹ کے حمام میں سب کچھ نظر بھی آ جاتا ہے اور کافی رازوں سے پردہ بھی اٹھ جاتا ہے۔ یہ ایک کڑوا گھونٹ ہے کیونکہ اس بیماری کے لئے متعدد جنسی ساتھیوں کا ہونا لازم ہے جو بیماری کو ایک سے دوسرے میں منتقل کرتے ہیں۔کون کس کو اس بیماری میں مبتلا کرتا ہے اور کہاں سے یہ لے کر آتا ہے؟ کوایک طرف رکھ کر محض یہ جان لیجیے کہ کینسر کا عذاب صرف عورت کے حصے میں آتا ہے اور بریسٹ کینسر کے بعد سب سے زیادہ شرح سروکس کے کینسر ہی کی ہے۔
خواتین کے حصے میں آنے والے عذاب ویسے ہی کم نہیں سو ناگہانی سے نبٹنے کے لئے اپنی بیٹیوں کے لئے HPV ویکسین کا خیال برا نہیں!