چولستان کینال،گرین پاکستان انیشیٹو کا ایک اہم ترین حصہ ہے جس سے چولستان کے 25,000 sq km پر پھیلے صحرا کو آباد کرنے کا شاندار منصوبہ ہے۔ اس پراجیکٹ سے پنجاب کی لاکھوں ایکڑ بنجر غیر آباد اراضی کو سیراب کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ چولستان صحرا میں پانی کی قلت کے مسائل کو حل کرے گا جو ہر قسم کی زندگی کو محفوظ بنانے کی ضامن بنے گا۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل سے پانی ذخیرہ کرنے کی موجودہ صلاحیت سے زیادہ اضافی پانی دستیاب ہوگا جو چولستان کینال میں استعمال ہوگا۔ اس منصوبے کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز یکجا ہوکر قومی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ پانی ہے تو زندگی ہے
پاکستان میں چولستان نہر کی تعمیر کے حوالے سے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں جو افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں، ان میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پنجاب اور سندھ کے درمیان تعلقات اس منصوبے کے باعث کشیدہ ہو گئے ہیں۔ یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جسے مفاد پرست گروہ اور پاکستان کے استحکام کے مخالف عناصر پھیلا رہے ہیں۔ اس مسئلے کو عوامی جذبات کو بھڑکانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے معاشی وسائل پر اپنا قبضہ برقرار رکھ سکیں۔ ان دعووں کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور وہ مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔ چولستان نہر کے حوالے سے جو چند اہم نکات ہیں وہ درج ذیل ہیں:
پاکستان کی زرعی معیشت: پاکستان کی معیشت کی بنیاد زرعی شعبے پر ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ شعبہ سکڑ چکا ہے اور اب ملک کے کل 79.6 ملین ہیکٹر اراضی میں سے صرف 22 ملین ہیکٹر اراضی پر زراعت کی جا رہی ہے۔
زرعی پیداوار میں کمی: پاکستان دنیا کا 15 واں بڑا زرعی پیدا کنندہ ہے اور گندم کا 8 واں بڑا پیدا کنندہ ہے، لیکن پھر بھی پیداوار اور مانگ میں فرق درپیش ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان کی سالانہ گندم کی ضروریات 30.8 ملین میٹرک ٹن ہیں، جب کہ اس کی کمی 4 ملین میٹرک ٹن ہے، جس کے باعث مہنگی درآمدات کرنا پڑتی ہیں۔
حکومت نے گرین پاکستان منصوبے کے تحت بنجر زمینوں کی زراعت کے لئے اقدامات شروع کئے ہیں تاکہ ملک بھر میں زرعی پیداوار بڑھ سکے۔
چولستان نہر کا منصوبہ: حکومت نے چولستان، تھل اور تھر کے بیابان علاقوں کی آبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چھ اسٹریٹجک نہروں کی تعمیر کی منظوری دی ہے، جن میں چولستان نہر بھی شامل ہے۔
چولستان کا جغرافیہ: چولستان صحرا کا رقبہ 26,300 مربع کلومیٹر ہے، جو پاکستان کے بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان کے اضلاع میں واقع ہے۔ یہ صحرا بھارت کے راجستھان صحرا سے مشرق میں اور تھرپارکر سے جنوب میں ملتا ہے۔ یہاں کی معیشت زیادہ تر مویشیوں کی پرورش پر منحصر ہے۔
چولستان نہر کی تعمیر کا مقصد: چولستان نہر کا مقصد دریائے ستلج کے سلیمانکی بیراج سے 4,120 کیوسک پانی کو 176 کلومیٹر کے فاصلے پر فورٹ عباس تک منتقل کرنا ہے، تاکہ 452,000 ایکڑ زمین کو سیراب کیا جا سکے۔
چولستان نہر کی تکمیل: چولستان نہر کا یہ منصوبہ 225 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہو گا۔ اس کے ذریعے چولستان کے بیابان علاقے میں 1.2 ملین ایکڑ اراضی کو قابل کاشت بنایا جائے گا۔
صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم: پانی کی تقسیم کا مسئلہ 1991 کے واٹر اپورٹیمنٹ ایکورڈ کے تحت حل کیا گیا ہے، جس میں پنجاب کو 48 فیصد، سندھ کو 42 فیصد، خیبر پختونخواہ کو 7 فیصد اور بلوچستان کو 3 فیصد پانی کی فراہمی کا حق دیا گیا ہے۔
چولستان نہر پر سیاسی پروپیگنڈا: کچھ لوگ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ چولستان نہر سندھ کی زرعی زمینوں اور پانی کی فراہمی کو متاثر کرے گی۔ تاہم، اس منصوبے کو پنجاب کے پانی کے جائز حصے میں شامل کیا گیا ہے اور یہ 0.58 MAF پانی کا استعمال کرے گا، جو کہ سندھ کے پانی کے حصے کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچائے گا۔
آبی وسائل کے نظم و ضبط کے اقدامات: اس منصوبے کے تحت ایک جدید ٹیلی میٹری سسٹم کی تنصیب بھی کی جا رہی ہے جس کی قیمت 25 ارب روپے ہے۔ یہ سسٹم پانی کی تقسیم اور استعمال کی نگرانی کرے گا اور کسی بھی قسم کی دھاندلی یا بدعنوانی کو روکنے میں مدد دے گا۔
چولستان نہر کا منصوبہ پاکستان کی زرعی پیداوار کو بڑھانے، بیابان زمینوں کو قابل کاشت بنانے اور مقامی لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس منصوبے کو سیاسی یا صوبائی مسائل کا شکار نہیں بنانا چاہیے، بلکہ اسے اس کے اصل مقصد کے تحت دیکھا جانا چاہیے تاکہ پاکستان کی اقتصادی ترقی میں اس کا مثبت کردار ادا کیا جا سکے