لورالائی(باغی ٹی وی رپورٹ) 15 روز سے گڈز ٹرانسپورٹ کی ہڑتال، کوئلے کی سپلائی معطل

تفصیلات کے مطابق لورالائی میں گڈز ٹرانسپورٹ کی ہڑتال کو 15 دن ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے ملک بھر میں کوئلے کی سپلائی مکمل طور پر بند ہے۔ دہشت گردی کے مسلسل واقعات کے نتیجے میں 50 سے زائد گاڑیاں نذرِ آتش کی جاچکی ہیں، جب کہ نصف درجن سے زائد ڈرائیور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ راڑہ شم کے علاقے میں سب سے زیادہ گاڑیاں جلائی گئیں، جن میں سے اکثر کوئلے کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتی تھیں، جبکہ کچھ گاڑیاں فروٹ اور سبزیوں سے لدی ہوئی تھیں۔

دکی، سنجاوی، ہرنائی اور شہ رگ کھوسٹ کے مقامات پر گڈز ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کا احتجاج جاری ہے۔ ہڑتال کے باعث لورالائی سے ڈیرہ غازی خان جانے والی شاہراہ سمیت دیگر اہم راستوں پر ٹریفک کی روانی متاثر ہے اور مسافروں و مال بردار گاڑیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ کوئلے کی لوڈنگ گزشتہ کئی دنوں سے بند ہے، جس کی وجہ سے دکی، ہرنائی، شہ رگ کھوسٹ اور چمالنگ سے پنجاب کے لیے کوئلے کی ترسیل مکمل طور پر رک گئی ہے۔

ڈیرہ غازیخان میں موجود گڈز ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر عبدالسلام ناصر اور جنرل سیکریٹری بلال لغاری نے باغی ٹی وی سے بات کرتے ہوئےحکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان اداروں کی توجہ صرف سگریٹ پکڑنے تک محدود ہے، جب کہ ڈرائیوروں اور مسافروں کو تحفظ فراہم کرنے پر کوئی دھیان نہیں دیا جا رہا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ٹرانسپورٹرز کے مسائل آخر کون حل کرے گا؟

عبدالسلام ناصر اور بلال لغاری نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ گڈز ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے نمائندوں سے فوری طور پر مذاکرات کرے، متاثرہ مالکان اور شہداء کے لواحقین کو معاوضہ فراہم کرے اور ہڑتال ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات پورے نہ کیے تو بلوچستان بھر میں کوئلے کی لوڈنگ غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دی جائے گی۔

ہڑتال کے باعث ٹرک مالکان کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے، جبکہ حکومت کو بھی ٹیکس کی مد میں بھاری خسارہ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے، احتجاج اور ہڑتال جاری رہے گی۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر حکومت کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ گڈز ٹرانسپورٹ کا بحران ختم ہو سکے، اور دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائی جا سکے۔

Shares: