صدیوں سے یہ مقولہ مشہور ہے کہ کتابیں انسان کی بہترین ساتھی ہوتی ہیں۔ کتابیں نہ صرف خلوت بلکہ جلوت کی بھی ساتھی ہوتی ہیں۔ وہ انسان کی رازداں ہوتی ہیں۔ علم کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے لیے کتابیں ہی تو سہارا ہوتی ہیں۔ نفسا نفسی اور خود غرضی کے اس دور میں کتابوں سے زیادہ مخلص دوست کوئی نہیں جو اپنے پڑھنے والے کی زندگی کے راز کسی سے نہیں کہتی ہوں۔ کتابیں قرطاس میں رازوں کو دفن کر کے اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں۔ سفر زیست کے پنے پلٹوں تو وہ دن بہت یاد آتے ہیں۔ جب زندہ دلان لاہور میں ہم سب کزنز تعلیم کی غرض سے مقیم تھے۔ ہمارا مستقل ٹھکانہ پھپھو اور نانی اماں کا گھر ہوا کرتا تھا۔ سارا دن کالج یونیورسٹیوں میں کورس کی کتابوں کے ساتھ سر کھپا کر، لاہور کی لوکل بسوں کی خاک چھان کر جب شام ہم اپنے ٹھکانے میں اکٹھے ہوتے تو ہماری زندگی کا محور و مرکز کورس کی کتب کے علاوہ بھی کچھ کتابیں ہوتی تھیں۔ کتنا حسین تھا وہ دور طالب علمی جب ہم اردو بازار جاتے تھے اور فٹ پاتھ پر لگے کتابوں کے اسٹال سے رسائل اور میگزین سستے دام میں خریدتے تھے۔ دور حاضر میں ہر شے مہنگائی کی نظر ہو گئی ہے۔ ایک ادب بچا تھا اسے بھی پیسے کی ہوس نے بے ادب کر دیا۔ میری طرح اردو بازار ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں طالبات کی یادوں میں مقید ہوگا۔ جہاں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کتب کو خوب دیکھنا اپنی من پسند کتاب کے مل جانے پر چیخ چیخ کر خوشی کا اظہار کرنا۔ اردو بازار کی یاد تو دل میں ایسی بسی ہے جہاں نہ رنگ کا فرق تھا، نہ نسل کا، نہ کلاس کا بس سب پڑھنے کے دیوانے اپنی دیوانگی کے ہاتھوں مجبور ہو کر چلے آتے تھے۔ اردو بازار فٹ پاتھ اسٹال کی سب سے حسین یادوں میں اگر میں یاد کرو تو مجھے ہنسی آ جاتی ہے۔ دوکاندار کے سامنے معصوم سی غربت والی مسکین سی رونی صورت بناتے تھے تو دکاندار پانچ روپے میں بھی میگزین تھما دیتا تھا اور اس وقت لگتا تھا کہ ہم نے کوئی دنیا فتح کر لی ہے۔ من پسند میگزین کا حصول ہمارے لیے اس وقت کی سب سے عظیم کامیابی تھی۔ پاکستان میں مڈل کلاس طبقے کو اپنی بہت سی خواہشات کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں لیکن اردو بازار کتب میلے تک ہر خاص و عام کتب سے محبت کرنے والے متوالے کی رسائی تھی۔ دور طالب علمی کی حسین یادوں میں ایک مثبت یاد یہ بھی ہے کہ پانچ پانچ روپے میں جو رسائل خریدے جاتے تھے پڑھنے کے بعد وہ واپس بھی ہو جاتے تھے اور ان کے بدلے ہم مزید نئے خرید لیتے تھے۔ کیا خوبصورت دور تھا گھر والوں سے چھپ کر کورس کی کتابوں میں رسائل اور میگزین رکھ کر پڑھنا۔ مجھے یاد ہے ندا (پھوپو زاد بہن) جو کتب کی دیوانی تھی اس کے بارے میں سب کہتے تھے یہ تو چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ محدود جیب خرچ میں پانچ پانچ روپے ڈال کر چھپ کر میگزین اکٹھے کرتی تھی۔ اب مسئلہ یہ ہوتا تھا کہ اس کو گھر والوں سے چھپا کر کہاں رکھا جائے تو بستر کے گدے کے نیچے بڑی عزت سے علم کا خزانہ چھپایا جاتا تھا۔ بحیثیت مڈل کلاس طالبہ کے ہم جیسوں کے لیے اردو بازار کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ کچھ دنوں پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کرتی نظر آئی۔ ملک دشمن عناصر تو سنا تھا مگر یہ علم دشمن عناصر کہاں سے وارد ہو گئے؟ انہی علم دشمنوں نے سالوں سے سجے کتب کے اسٹال اکھاڑ پھینکے۔ یہ بات لکھتے ہوئے میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ میرے ہاتھ لکھتے ہوئے کانپ رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کسی نے میرا بچپن، میرا لڑکپن، میرا دور طالب علمی تیز نوکیلے اوزار سے نوچ لیا ہو۔ اس منظر کو دیکھنا اور اس کے بعد تحریر کرنا میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ جب لکھتے ہوئے میرے دل میں اتنا درد اٹھ رہا ہے تو جو سالوں سے دھوپ، چھاؤں، بارش، آندھی، طوفان اور موسموں کے تغیر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان سٹالز کو اپنا خون جگر پلا کر اپنی اولاد کی طرح پروان چڑھا رہے ہوں گے ان کے دل پر کیا بیت رہی ہو گی؟ کوئی ان کے دل کی تکلیف ان سے جا کر پوچھے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ کتابیں بظاہر بے جان ہوتی ہیں لیکن قاری اور لکھاری کی نظر سے دیکھیں تو کتابوں سے زیادہ جاندار کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے قاری کے ساتھ ہستی ہیں، اس کے ساتھ روتی ہیں، وہ خاموشی کی زباں میں بولتی ہیں۔ اپنا مدعا بیان کرتی ہیں۔ ہاں! کتابیں خود میں جیتی جاگتی ہیں وہ سانس لیتی ہیں۔ وہ مردہ دلوں کو علم کی آبیاری سے سیراب کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ ان کو بھی درد ہوتا ہے وہ بھی قاری کا خیال رکھنا خود سے محبت کرنا محسوس کرتی ہیں۔ میری نظر میں کتابیں جان رکھتی ہیں، سانس لیتی ہیں، وہ جیتی جاگتی ہیں۔ قاری کے دلوں پر راج کرتی ہیں۔ کہانیوں کے ذریعے ہم اپنی زندگی میں کتنے ہی سپنے بنتے ہیں۔ الفاظ کیسے قاری کے دل کو مضبوطی و تقویت بخشتے ہیں یہ کوئی کتب بینی سے محبت کرنے والوں سے پوچھے۔ مجھے اپنی تکلیف کا احساس ہے، دکاندار کو اپنا غم سب سے بڑا لگ رہا ہے، طالبات اپنی جگہ حالت غم میں ہیں۔ کیا کسی نے ان کتب سے پوچھا جب انہیں بے دردی سے اچھالا گیا، جب دور پھینک دیا گیا، جب ان کی حرمت کو پامال کیا گیا تو ان کو کتنی تکلیف ہوئی؟ انہوں نے کتنا درد سہا؟ وہ جو انسان کی تنہائی کا ساتھی اور بہترین دوست ہونے کا دعوی کرتی ہیں آج ان کتب کو اپنے قاری کی محبت کا ثبوت چاہیے۔ دنیا میں ہر چیز ترقی کر رہی ہے سوشل میڈیا کا دور ہے لیکن کتاب دوستی ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ان شاءاللہ!

کائنات کو وجود بخشنے سے پہلے رب العزت نے کتاب تقدیر لکھی جسے لوہے محفوظ میں رکھ دیا گیا۔ ہر پیغمبر کو جب نائب مقرر کیا گیا تو اپنا پیغام رب نے کتاب یا صحیفے کی صورت میں بنی نوع انسان تک پہنچایا۔ آسمانوں سے رب کا پیغام پیغمبروں کے دلوں پر کتابوں کی صورت میں نازل ہوا آخری آسمانی پیغام جو وحی کی صورت خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا وہ بھی کتابی صورت میں محفوظ ہے۔ اس دور میں عرب میں کاغذ کا دستور نہ تھا پیغام الہی کو چمڑے پر، درختوں کی چھال پر، پتھروں پر محفوظ کیا جاتا تھا۔ جنگ یمامہ میں 70 سے زائد حفاظ صحابہ اکرام کی شہادت نے حضرت ابوبکر کے دل پر وحی الہی کو مصحف کی صورت میں جمع کرنے کا خیال آیا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللّٰہ عنہ جنہیں کاتب وحی کہا جاتا ہے انہوں نے انتھک محنت سے قرآن پاک کو مصحف کی صورت میں ترتیب دیا جو آج ہر لحاظ سے محفوظ ہے۔ کتاب سے محبت انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ دور نبوی میں بھی جنگوں میں مجاہدین کے جذبہ شوق کو جگانے کے لیے شاعری کی جاتی تھی یعنی ہر دور میں علم کو محفوظ کرنے کے لیے قرطاس کا سہارا لینا پڑا۔ علم وحی کا ہو چاہے ادب کا ہو، فنون لطیفہ ہو یا سائنس ہو علم تو علم کا درجہ ہی رکھتا ہے۔ جس نے علم کی قدر نہیں کی پھر انہوں نے اپنی قدر و منزلت بھی کھو دی۔ آج گیجٹس کے دور میں چند معتبر اشیاء جو بچ گئی ہیں ان میں کتب بھی شامل ہیں، اور اردو بازار مہنگائی کی جنگ لڑتا اپنے قارئین کو کم داموں میں علم کی پیاس بجھانے کا موقع فراہم کرتا تھا۔

مگر یہ لمحہ فکریہ ہے آج حکام اعلی کے لیے۔ کسی چیز کو اس کا مقام نہ دینا ظلم ہے اور ظالموں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔ آئیے! ہم سب مل کر کتاب دوستی کے لیے آواز اٹھائیں۔ اردو بازار کتابوں سے محبت کرنے والوں کی یادوں میں بسا ہے۔ آئیں! آج اپنی یادوں کو تکلیف دہ نہیں بلکہ خوشیوں والا بنائیں۔ آئیے! آج کتابوں کو ان کا اصل مقام دلانے کے لیے آواز اٹھائیں۔ میں نے کہیں پڑھا تھا جس قوم کے جوتے شوکیس میں رکھے جائیں اور کتابیں سڑکوں پر ہوں تو اس قوم کا تو اللہ ہی حافظ ہے لیکن یہاں تو سڑکوں سے اٹھا کر کتب کو دربدر کر دیا گیا۔ یہ علم تو مومن کے سر کا تاج ہے، دل کا سکون ہے، زندگی کی راحت ہے، آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ آج اس کو سڑکوں سے بھی اٹھا دیا گیا ہے۔ مڈل کلاس طالبات کی علمی پیاس کے لیے آواز اٹھائیں ورنہ اگلی نسلوں کی علمی آبیاری ممکن نہ رہے گی۔ ڈریں اس وقت سے جب ہمیں اپنے ایمان کا حساب دینا ہو گا، اگر ہم آگے بڑھ کر برائی کو ہاتھ سے روکنے کی جرات نہیں رکھتے تو اپنی زبان سے غلط کو غلط کہنا سیکھیں اگر وہ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم اسے دل میں تو برا جانیں اور یہ ایمان کی سب سے کمزور حالت ہے اپنے کمزور ایمان کو بچائیے۔ حق کو حق اور باطل کو باطل کہنا سیکھیے۔ آئیے! حق کے راستے کی بارش کا پہلا قطرہ بن جائیں کیونکہ جب زمیں پر جل تھل ہو گی تو کہیں راہ حق میں ہمارا بھی حصہ ہو گا۔ ان شاءاللہ!

Shares: