پاکستان کی سیاسی صورتحال میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ اس معاملے پر سپیکر قومی اسمبلی، ایاز صادق نے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت کے لیے ہر وقت دستیاب ہیں۔

ایاز صادق کا کہنا تھا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخیوں کو ختم کرنے کے لیے تیار ہیں اور اس حوالے سے ان کا دفتر اور گھر دونوں ہر وقت کھلے ہیں۔ایاز صادق نے مزید کہا کہ "سیاسی ایشوز سمیت کسی بھی معاملے پر مذاکرات میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں، اور کل ایوان میں ہونے والی بحث بھی خوش آئند تھی۔” ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بہتر بات چیت سے ہی ملک کے سیاسی مسائل کا حل ممکن ہے۔میں کچھ مصروف تھا ،کل بھی ہاؤس نہیں جا سکا، مختصر وقت کے لئے گیا تھا، کل شیر افضل مروت،رانا ثناء اللہ، خواجہ آصف نے جو بات چیت کی وہ میں نے دیکھی، سپیکر کا دفتر سب کا گھر ہوتا ہے، سپیکر کے دروازے ہر وقت ممبران کے لیے کھلے ہوتے ہیں،اپوزیشن و حکومت دونوں کے لئے چوبیس گھنٹے میرا دفتر ،گھر کھلا ہے اگر مذاکرات کی بات کرنا چاہیں، مل بیٹھ کر تلخی ختم کرنا چاہیں، ملکی مفاد پر مبنی چیزوں کو سامنے رکھ کر بات کرنا چاہیں، بے شمار اور چیزیں ہیں، موسمیاتی تبدیلی، امن و امان، صوبوں کی خود مختاری ان پر بھی بات چیت ہو سکتی ہے، میرے لئے حکومت و اپوزیشن کے تمام اراکین قابل احترام ہیں.

اس سے قبل، مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کے فلور پر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی مشروط پیشکش کی تھی۔ ن لیگ کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ نے اس موقع پر اسپیکر آفس کا رستہ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ "اگر آپ سنجیدہ ہیں تو کم از کم حکومت کو مذاکرات کا پیغام تو بھیجیں۔” رانا ثناء اللہ کا یہ بیان حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت کے امکانات کو مزید بڑھاتا ہے۔پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت نے بھی اس موقع پر کہا کہ "سیاسی قائدین کو مل بیٹھنا چاہیے، کیونکہ جب تک تمام سیاسی قوتیں ایک ہو کر نہیں بیٹھیں گی، مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔” ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو ایک میز پر آ کر مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔

اس موقع پر ایاز صادق نے اپنے مثبت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مکالمت کو فروغ دینے کے لیے تیار ہیں تاکہ ملک کی سیاسی صورتحال میں بہتری لائی جا سکے۔

پاکستان کی سیاست میں اس وقت تناؤ کی صورتحال ہے اور ایسے میں مذاکرات کی ضرورت شدت اختیار کر چکی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے رہنماؤں کی جانب سے اس معاملے پر اپنی اپنی تجاویز دی جا رہی ہیں، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سیاسی اختلافات کے باوجود بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا جا رہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا حکومت اور اپوزیشن مذاکرات کی اس پیشکش پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرتی ہیں اور کیا ایاز صادق کی کوششیں اس بات چیت کے لیے زمین ہموار کر سکیں گی۔

Shares: