ٹرمپ کی پالیسیوں کے بعض پہلو بھارت کے لیے پریشانی کا باعث

5 مہینے قبل
تحریر کَردَہ
trump modi

امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے خود دیے گئے لقب "ٹیرِف مین” پر قائم ہیں۔ اس بار، وہ اپنی حلف برداری سے پہلے دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

اس ماہ کے شروع میں، ٹرمپ نے برکس ممالک کو خاص طور پر نشانہ بنایا، اور انہیں دھمکی دی کہ اگر وہ ایک نئی کرنسی تشکیل دیتے ہیں یا امریکی ڈالر کی جگہ کوئی اور کرنسی اختیار کرتے ہیں، تو ان پر 100 فیصد ٹیکس عائد کیے جائیں گے۔بھارت، جو کہ برکس کا بانی رکن ہے اور اس تنظیم میں چین اور روس جیسے ممالک شامل ہیں، اس وقت اس عالمی تنظیم میں طاقتور اور مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ٹرمپ نے اس سے پہلے بھارتی تجارتی تعلقات کے حوالے سے نئی دہلی کو "بہت بڑا بدسلوکی کرنے والا” قرار دیا تھا، اور اس پر الزامات لگائے تھے۔

ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں اسٹیل اور ایلومینیم پر ٹیکس عائد کیے تھے، جس سے جوابی اقدامات کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ اس کے بعد ٹرمپ نے بھارت کو ترجیحی تجارتی حیثیت سے محروم کر دیا، جس سے بھارت کی اربوں ڈالر مالیت کی مصنوعات امریکی ٹیکسوں سے مستثنیٰ تھیں، اور اس فیصلے نے بھارتی حکام میں غصے کی لہر دوڑائی۔تاہم، ان سب کے باوجود، منتخب صدر ٹرمپ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ گرم جوش ذاتی تعلقات رکھتے ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کی تعریف کی تھی، خاص طور پر جب ٹرمپ نے مودی کے گھر کے ریاست گجرات کا دورہ کیا تھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ قریبی تعلقات بھارت کو ٹرمپ کے دوسرے دورِ حکومت میں فائدہ دے سکتے ہیں۔

ٹرمپ کے اقتدار میں بھارت کی پوزیشن ایک منفرد مقام پر آتی ہے۔ Harsh Pant، جو کہ اوبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے نائب صدر ہیں، نے سی این این کو بتایا کہ "دیگر برکس ممالک جیسے روس، چین اور برازیل امریکہ مخالف جذبات رکھتے ہیں، لیکن بھارت ان میں شامل نہیں ہے۔” بھارت کی اس منفرد پوزیشن کو اس کے حق میں سمجھا جا سکتا ہے، خاص طور پر اس کی اقتصادی طاقت اور عالمی سطح پر اس کے اثر و رسوخ کے پیش نظر۔برکس ممالک کے درمیان یہ امکان بھی موجود ہے کہ وہ امریکی ڈالر سے دوری اختیار کریں اور اپنی مشترکہ کرنسی تشکیل دیں یا کسی دوسرے مالیاتی نظام کی طرف بڑھیں۔ ایسے میں ٹرمپ کا دباؤ بھارت کے لیے ایک موقع فراہم کر سکتا ہے کہ وہ گروپ کے دیگر اراکین کو اس راستے پر چلنے سے روکے تاکہ امریکہ کے ردعمل سے بچا جا سکے۔

بھارت میں اب بھی امریکہ کے لیے مثبت جذبات پائے جاتے ہیں، اور چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سبب واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات میں مضبوطی آئی ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں بھارت کے ساتھ تعلقات اچھے رہے، اور اس کی وجہ سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دور زیادہ خلفشار کا باعث نہیں بنے گا۔بھارتی وزیر خارجہ سبھرمیمنیم جے شنکر نے حال ہی میں کہا تھا کہ بھارت امریکی ڈالر کی طاقت کو کمزور کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت امریکی کرنسی کے ساتھ اپنے تعلقات میں استحکام کی خواہش رکھتا ہے۔

مودی اور ٹرمپ نے اپنے ذاتی تعلقات کو مزید مستحکم کیا ہے۔ 2019 میں، ٹرمپ کے دورے پر بھارتی وزیراعظم مودی کو ٹیکساس میں "ہاؤڈی مودی” ریلی میں زبردست پذیرائی ملی تھی۔ اس کے بعد، 2020 میں، احمد آباد میں "نمستے ٹرمپ” کے عنوان سے ہونے والی ریلی میں 1,25,000 افراد نے ٹرمپ کا خیرمقدم کیا تھا۔اگرچہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات نے امریکہ کے حق میں توازن برقرار رکھا ہے، تاہم ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ 10 فیصد عمومی ٹیکس بھارت پر اثرانداز ہو سکتا ہے، کیونکہ بھارت امریکی مارکیٹ میں بہت زیادہ برآمدات کرتا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں، امریکہ نے بھارت سے تقریباً دوگنا مال درآمد کیا ہے جو اس نے بھارت کو برآمد کیا۔

بھارت اب ایک اہم مینوفیکچرنگ مرکز بن چکا ہے، خاص طور پر کمپنیوں جیسے ایپل کے لیے، جو چین کے بجائے بھارت میں اپنی سپلائی چین کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ 2024 کے ابتدائی 10 مہینوں میں، امریکہ نے بھارت سے 73 ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات درآمد کیں، جبکہ بھارت کو امریکہ سے صرف 35 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔اگرچہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے بعض پہلو بھارت کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں، تاہم بھارت کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہو سکتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مستحکم کرے اور اپنے عالمی مقام کو مزید مستحکم کرے۔ ٹرمپ اور مودی کے درمیان مضبوط ذاتی تعلقات اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں فاصلہ کم ہو گا،

سزائیں پلان پر عمل کرنے والوں کو،منصوبہ سازوں کی بھی جلد باری آئے گی،خواجہ آصف

سانحہ نومئی،14 مجرموں کو 10 سال قید،25 سزا یافتہ مجرموں کی تفصیل

سانحہ نو مئی، فوجی عدالتوں کابڑا فیصلہ، 25 مجرمان کو سزا سنا دی

ممتاز حیدر

ممتاز حیدر اعوان ،2007 سے مختلف میڈیا اداروں سے وابستہ رہے ہیں، پرنٹ میڈیا میں رپورٹنگ سے لے کر نیوز ڈیسک، ایڈیٹوریل،میگزین سیکشن میں کام کر چکے ہیں، آجکل باغی ٹی وی کے ساتھ بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں
Follow @MumtaazAwan

Latest from بین الاقوامی