پاکستانی انسانی اسمگلروں کی جانب سے آذربائیجان، ایران، عراق، اور سعودی عرب کے راستے یورپ اور مغربی ممالک شہریوںکو بھیجے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
گزشتہ دنوں یونان میں کشتی ڈوبنے کے واقعات میں متعدد پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کے بعد انسانی اسمگلنگ کے اس نیٹ ورک کا پتہ چلا، جس نے ان افراد کو غیر قانونی طور پر یورپ پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ آذربائیجان پاکستانی انسانی اسمگلروں کے لیے ایک اہم مرکز بن چکا ہے۔ آذربائیجان کے وزٹ ویزے کی قیمت صرف 26 ڈالر (تقریباً 7206 پاکستانی روپے) ہے اور یہ آن لائن دستیاب ہوتا ہے۔ اس ویزے کے لیے کسی پاکستانی شہری کو بینک اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹ یا دیگر اضافی دستاویزات فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں پاکستانی اور مقامی ٹریول ایجنٹس کا ایک نیٹ ورک موجود ہے جو غیر قانونی اسمگلنگ کی سرگرمیاں چلاتا ہے۔ یہ ایجنٹ پاکستانی شہریوں کو باآسانی آذربائیجان کا وزٹ ویزہ دلاتے ہیں اور وہاں پہنچنے کے بعد، یہ افراد غیر قانونی طور پر یورپ جانے کے لیے مزید سہولتیں حاصل کرتے ہیں۔
آذربائیجان کے راستے یورپ کی طرف غیر قانونی سفر
آذربائیجان کے وزٹ ویزے کے ذریعے یورپ جانے کا طریقہ کار کچھ یوں ہے: پاکستانی شہری آذربائیجان پہنچ کر ایجنٹوں سے رابطہ کرتے ہیں اور پھر مختلف ممالک کی طرف غیر قانونی طور پر سفر کرتے ہیں، جہاں سے یورپ پہنچنا نسبتا آسان ہوتا ہے۔ آذربائیجان میں پہنچنے کے بعد اکثر افراد ایجنٹوں کے ساتھ مل کر جعلی دستاویزات یا ویزے حاصل کرتے ہیں، جس سے انہیں یورپ پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔
سعودی عرب، ایران اور عراق کے راستے اسمگلنگ
اسی طرح سعودی عرب میں عمرہ ویزے پر پہنچ کر وہاں موجود ایجنٹوں سے جعلی ویزے یا پاسپورٹ حاصل کر کے اگلے سفر کی تیاری کی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں سعودی عرب سے ایسے درجنوں افراد کو پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا ہے جو عمرہ ویزے پر سعودی عرب گئے تھے اور وہاں سے آگے غیر قانونی طور پر سفر کرنا چاہتے تھے۔
ایران اور عراق کے راستے بھی پاکستانی اسمگلروں کے نیٹ ورک کے لیے اہم ہیں۔ ایران میں زمینی یا بحری راستوں سے پہنچ کر پاکستانی یا مقامی ایجنٹس کے ذریعے جعلی دستاویزات حاصل کی جاتی ہیں، اور پھر یہ افراد یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح عراق میں بھی انسانی اسمگلنگ کا ایک نیٹ ورک سرگرم ہے، جہاں پاکستانی شہری مختلف طریقوں سے غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستانی انسانی اسمگلروں کا نیٹ ورک صرف آذربائیجان، ایران، سعودی عرب اور عراق تک محدود نہیں بلکہ ترکی، ملائیشیا، تھائی لینڈ، مراکش، جارجیا اور دیگر ممالک میں بھی پاکستانی اسمگلرز موجود ہیں۔ ان ممالک میں مختلف طریقوں سے پاکستانی شہریوں کو غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک پہنچانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
پاکستان کی حکومت کی جانب سے اس مسئلے کی روک تھام کے لیے کوئی مؤثر ایس او پیز (معیاری آپریٹنگ پروسیجرز) موجود نہیں ہیں۔ 2005 میں آخری بار وزارت داخلہ نے امیگریشن پالیسی جاری کی تھی، جس کے بعد سے اس میں کوئی تبدیلی یا اپ ڈیٹ نہیں کی گئی۔ نتیجتاً، انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک نے آزادانہ طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہیں اور ہزاروں افراد غیر قانونی طریقوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔انسانی اسمگلنگ کے اس پیچیدہ نیٹ ورک کی روک تھام کے لیے حکومت پاکستان کو فوری طور پر نئی پالیسی تیار کرنے اور انٹرنیشنل لیول پر کارروائیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی، پاکستانی شہریوں کو آگاہی دینے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں تاکہ وہ انسانی اسمگلروں کے جال میں نہ پھنسیں اور غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کی کوششوں میں جان کی بازی نہ ہاریں۔یونان میں کشتی ڈوبنے کی حالیہ واردات نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ پاکستان کے شہری غیر قانونی طریقوں سے یورپ جانے کی کوشش میں اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
کراچی ، انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک بے نقاب
انسانی سمگلنگ،وزیراعظم کی ملوث اہلکاروں کیخلاف کاروائی کی ہدایت
سپریم کورٹ، فون اسمگلنگ کی ملزمہ کی ضمانت منظور
خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ کے خاتمے کیلئے خصوصی کمیٹی تشکیل








