کیا ڈیرہ غازیخان کی پسماندگی کے ذمہ دار سردار ہیں؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
ڈیرہ غازیخان جو پنجاب کا ایک اہم ضلع اور ڈویژنل ہیڈکوارٹر ہے، کئی دہائیوں سے ترقی کے وعدوں کا شکار ہے۔ اس علاقے میں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن عوام کو وہ سہولتیں اور ترقیاتی منصوبے نہیں مل سکے جو انہیں حاصل ہونا چاہیے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس پسماندگی کے ذمہ دار وہ سردار ہیں جو اس خطے کی سیاسی قیادت کے دعوے دار ہیں؟ سرداروں کے اقتدار کے باوجود ڈیرہ غازیخان میں بنیادی سہولتوں کی کمی، صنعتی ترقی کا فقدان اور صحت کے بحران جیسے مسائل حل نہ ہو سکے۔ یہ صورتحال عوام کے لیے ایک تشویش کا باعث بن چکی ہے اور اب یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ آیا سردار اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ڈیرہ غازیخان جوڈویژنل ہیڈکوارٹر ہے، نہ ہی یہاں ریلوے سروس فعال ہے ، نہ ہی ایئرپورٹ کام کر رہا ہے،یہاں نہ موٹروے ہےاور نہ اچھی سڑکیں موجود ہیں، میٹرو بس،اورینج ٹرین ، فلائی اوور، انڈر پاس یا جدید بنیادی ڈھانچوں کا توکوئی تصورہی نہیں کیا جاسکتاہے۔
ڈیرہ غازیخان میں ڈی جی سیمنٹ اور الغازی ٹریکٹرز جیسی بڑی فیکٹریاں موجود ہیں جو خطے کی معیشت کے لیے اہم ہیں۔ لیکن یہ صنعتیں مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کررہی ہیں اور نہ ان کے لیے صحت کی سہولت، نہ تعلیمی ادارے قائم کرتی ہیں اور نہ ہی پینے کے صاف پانی کے منصوبے دئے ہیں۔ بلکہ ان فیکٹریوں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی، دمہ، ہیپاٹائٹس اور کینسر جیسی خطرناک بیماریاں عام ہو چکی ہیں۔ ان بیماریوں کی روک تھام کے لیے کوئی مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے اور یہ صنعتیں صرف دولت جمع کرنے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔
ڈیرہ غازیخان میں اٹامک انرجی موجود ہے ،پاکستان اٹامک انرجی کے زیرِ انتظام کئی اضلاع میں کینسر ہسپتال کام کر رہے ہیں لیکن ڈیرہ غازیخان کی عوام اس بنیادی ضرورت سے محروم ہیں۔ اس علاقے میں کینسر کی بیماری عام ہے ،کینسرکے مریض بے یار و مددگار زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو عوام کے ساتھ سوکن جیسا سلوک ہے۔
یہ حیرت کی بات ہے کہ یہاں کے عوام کو اس قدر سنگین مسائل کا سامنا ہے حالانکہ ڈیرہ غازیخان سے تعلق رکھنے والی کئی اہم سیاسی شخصیات نے ملک کے اعلی ترین عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں۔ سردار میر بلخ شیر مزاری اور غلام مصطفی جتوئی وزرائے اعظم رہے، سردار فاروق احمد خان لغاری پاکستان کے صدر رہے اور دیگر سردار بھی اہم وزارتوں پر فائز رہے۔ اس کے باوجود ضلع کی عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
سردار اویس احمد خان لغاری جو اس وقت وفاقی وزیر برائے توانائی ہیں اور ہردور میں حکومت کا حصہ رہے اور اہم وزارتوں پر فائز رہے ہیں، ریلوے اسٹیشن کی بحالی یا دیگر بنیادی منصوبوں میں کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہ کر سکے۔ ان کی قیادت میں ریلوے اسٹیشن جو چاروں صوبوں کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا مگر کرپشن اور غفلت کے باعث ناکارہ ہو چکا ہے۔ اس کی زمین اور دیگر اثاثے کرپٹ مافیا کے ہاتھوں میں جا چکے ہیں جو اسے اونے پونے بیچ رہے ہیں،سردار اویس احمد لغاری آج تک ڈیرہ غازیخان کیلئے کوئی میگاپروجیکٹ لانے میں عملاََ ناکام رہے ہیں
سابق گورنر پنجاب سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اور ان کے بیٹے سردار دوست محمد کھوسہ جو وزیر اعلی پنجاب کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں بھی علاقے کی ترقی میں خاطر خواہ کردار ادا نہیں کر سکے۔انہوں نے اپنے دور حکومت میں غازی میڈیکل کالج دیا لیکن اس کالج میں آج بھی مقامی طلباء کیلئے کوئی کوٹا مختص نہیں ہے ،عملاََ ڈیرہ غازیخان سے تعلق رکھنے طلباء غازی میڈیکل کالج میں داخلوں سے محروم رہتے ہیں، سردار دوست محمد کھوسہ کے مختصر دورِ حکومت میں چند ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے لیکن ان کی پائیداری اور عوام تک رسائی محدود رہی۔
سردار فاروق احمد خان لغاری نے ایک انٹرنیشنل ایئرپورٹ بنوایالیکن ائرپورٹ چالو ہونے کے بجائے بند پڑا ہے۔ سردار عثمان بزدار نے وزیر اعلی کے طور پر صرف ایک میگا پروجیکٹ سردار فتح محمد خان بزدار کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ دیا۔ دیگر وعدے محض زبانی جمع خرچ ثابت ہوئے۔ ان کے دور حکومت میں تونسہ میں ترقیاتی کاموں پر توجہ دی گئی جبکہ ڈیرہ غازیخان نظر انداز رہا۔ ان کے بھائیوں کی کرپشن کی کہانیاں بھی عوام میں گردش کرتی رہیں۔
ڈیرہ غازیخان کی عوام دہائیوں سے سرداروں کے وعدے سنتی آ رہی ہے۔ یہ ضلع ڈویژنل ہیڈکوارٹر ہے جس میں چھ اضلاع شامل ہیں، ترقی کے معاملے میں باقی پنجاب سے کہیں پیچھے اور پسماندہ ترین ضلع ہے۔ عوام اس انتظار میں ہیں کہ کب ان کے مسائل حل ہوں گے اور کب وہ بنیادی سہولتوں سے مستفید ہوں گے۔ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، لیکن ایوان اقتدار میں بیٹھے سردار عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
یہ ضلع جو قدرتی وسائل اور تاریخی اہمیت رکھتا ہے صرف وعدوں پر گزارا کر رہا ہے۔ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ ضلع اپنی پسماندگی کے اندھیروں میں مزید گم ہو جائے گا۔ ڈیرہ غازیخان کی عوام کے لیے ترقیاتی منصوبوں اور فلاحی اقدامات کا نہ ہونا یہاں کے سرداروں اور حکومت کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔ عوام کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے کے لیے فوری اور مئوثر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ اس علاقے کے مسائل حل ہوں اور یہاں کی عوام بھی ترقی کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں۔
ڈیرہ غازیخان کی پسماندگی اور عوامی مسائل کا حل اس بات پر منحصر ہے کہ علاقے کی سیاسی قیادت کتنی سنجیدگی سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتی ہے۔ سرداروں کی قیادت میں اب تک جو ترقیاتی منصوبے نظرانداز ہوئے ہیں، اس بات کا غماز ہے کہ سرداروں کو عوامی فلاح و بہبود میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ اگر فوری طور پر بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور ترقیاتی منصوبوں پر توجہ نہیں دی گئی تو یہ ضلع اپنی پسماندگی کے اندھیروں میں مزید غرق ہو جائے گا۔ ڈیرہ غازیخان کی عوام کے لیے ضروری ہے کہ انہیں اپنے حقوق اور سہولتیں جلد از جلد فراہم کی جائیں تاکہ یہ خطہ ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکے۔
اب سرداروں کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اب یہ 77سال پہلے بزرگوں والا ڈیرہ غازیخان نہیں ہے، جب آپ کے بڑوں کے ایک پیغام پر تمام برادریاں ووٹ دیا کرتی تھیں ،اب وقت تبدیل ہوچکا ہے ، یہ پڑھے لکھے نوجوانوں کا ڈیرہ غازیخان ہے اگر اب بھی آپ نے ایوانوں بیٹھ کر اپنے علاقے ،اپنے شہراور ضلع کے عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ نہ دی تو وہ وقت دور نہیں ہے جب آپ دوبارہ اسمبلیوں میں جانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے اور بہت جلد آپ کی جگہ کوئی اور اسمبلی میں پہنچ جائے گا اور آپ ماضی کاحصہ بن جائیں۔