جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے قائم مقام صدر ہان ڈک سو کے خلاف مواخذے کی قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہ قرارداد جنوبی کوریا کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیش کی گئی تھی، جس میں اپوزیشن نے ہان ڈک سو کے خلاف آئینی ججوں کی تقرری کے معاملے پر کارروائی کی درخواست کی تھی۔
قائم مقام صدر ہان ڈک سو نے اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے سابق صدر یون سک یول کے خلاف آئینی ججوں کی تقرری سے انکار کر دیا تھا، جس پر اپوزیشن نے ان کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اپوزیشن کا موقف تھا کہ حکومت کی جانب سے آئینی ججوں کی تقرری میں تاخیر اور دیگر اہم فیصلوں کے باعث ملک میں جمہوری عمل متاثر ہو رہا ہے۔
اپوزیشن کی جماعتوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دو آزاد تحقیقاتی ادارے تشکیل دیے جائیں جو معزول صدر یون سک یول کے مارشل لا اور خاتون اول کے مبینہ رشوت کے معاملات کی تحقیقات کریں۔ اپوزیشن نے یہ بھی کہا کہ اس نوعیت کے سنگین الزامات سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، اس لیے ان معاملات کی کھلی اور شفاف تحقیقات ضروری ہیں۔
یہ پہلی بار ہے کہ جنوبی کوریا کی تاریخ میں کسی قائم مقام صدر کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کی گئی ہو۔ ہان ڈک سو، جو کہ جنوبی کوریا کے وزیراعظم بھی ہیں، کے خلاف اپوزیشن نے اس تحریک کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں اس قرارداد کی منظوری کے بعد ہان ڈک سو کی حکومت کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں، اور یہ پیشرفت جنوبی کوریا کے سیاسی منظر نامے میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس سے قبل جنوبی کوریا میں سابق صدر یون سک یول کے خلاف بھی مواخذے کی تحریکیں پیش کی گئی تھیں۔ اپوزیشن نے سابق صدر کے فیصلے کے خلاف دو مختلف تحریکیں پیش کی تھیں، جن میں ایک مارشل لا لگانے کے فیصلے کے خلاف تھی۔ پہلی تحریک ناکام ہو گئی تھی، لیکن دوسری تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں صدر یون کو عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔
جنوبی کوریا کی سیاسی تاریخ میں یہ تبدیلی ایک اہم لمحہ ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اس اقدام نے نہ صرف قائم مقام صدر ہان ڈک سو بلکہ پورے حکومت کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ اس دوران، سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر تحقیقات میں کسی قسم کی قانونی بے ضابطگیاں ثابت ہوئیں تو ملک میں سیاسی بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔جنوبی کوریا میں سیاسی کشیدگی اور عدم اعتماد کے بڑھتے ہوئے ماحول میں، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت کس سمت میں پیش رفت کرتی ہے۔ ملک کی معیشت، عوامی مفاد اور جمہوری اداروں کی استحکام کے لیے اس سیاسی بحران کا حل نکالنا ضروری ہوگا۔







