لاہور پریس کلب کی خوبصورتی میں اضافہ اور صحافیوں کی سہولت کے لیے کئی اہم ترقیاتی منصوبے کامیابی کے ساتھ مکمل کیے گئے ہیں۔ یہ سب ممکن ہوا ہے محمد آصف بٹ کی قیادت اور ان کی ٹیم کی محنت کی بدولت، جنہوں نے حکومت کی امداد کے بغیر اپنے وسائل اور کاوشوں سے لاہور پریس کلب کی حالت کو بہتر بنایا۔

محمد آصف بٹ کی قیادت میں، لاہور پریس کلب میں تقریباً چار کروڑ روپے کے ترقیاتی کام کیے گئے ہیں، شملہ ہل پر موجود پہاڑی کو بہتر بنا کر اس کی خوبصورتی میں اضافہ کیا گیا ۔ صحافیوں کے لیے ٹریک کو بہتر بنایا گیا تاکہ وہ ورزش اور تفریح سے لطف اندوز ہو سکیں۔لاہور پریس کلب میں 50 نئی بینچز نصب کی گئیں تاکہ صحافیوں اور وزیٹرز کو بیٹھنے کی سہولت فراہم کی جا سکے۔ کینٹن کی جگہ کو مکمل طور پر نیا کیا گیا تاکہ صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو بہترین سہولت مل سکے۔ ایک مکمل فٹنس کلب قائم کیا گیا تاکہ صحافی اپنی صحت کا خیال رکھ سکیں۔ چار عدد بارش انجوائے کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ہٹس بنائے گئے تاکہ صحافی موسم کا لطف اٹھا سکیں۔لاہور پریس کلب میں موجود مسجد کی تزئین و آرائش کی گئی۔ 30 لاکھ روپے کی سب سے بڑی گرانٹ حاصل کی گئی جو چودھری اورنگزیب سراء نے فراہم کی۔وضو کے لیے جدید سہولتیں فراہم کی گئیں۔ لاہور پریس کلب کے نئے گیٹ کی تعمیر کی گئی تاکہ اس کی حفاظت اور جمالیات میں اضافہ ہو۔

صحافی کالونی میں فیملیز اور بچوں کے لیے 10 عدد جھولے نصب کیے گئے اور متعدد ترقیاتی کام کیے گئے۔ ایف بلاک میں کروڑوں روپے کی ترقیاتی سرمایہ کاری کی گئی۔

محمد آصف بٹ نے ان تمام منصوبوں کو کامیابی کے ساتھ مکمل کیا اور ثابت کیا کہ اگر کام کرنے کا جذبہ ہو تو حکومت کی امداد کے بغیر بھی بڑے منصوبے کامیابی سے مکمل کیے جا سکتے ہیں۔ ان کی قیادت میں کیے جانے والے ترقیاتی کام اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حقیقی محنت اور لگن سے کام کرنے والوں کے لیے کامیابی ضرور ملتی ہے۔

محمد آصف بٹ نے کہا کہ "ہم اپنے کام سے بولتے ہیں، نہ کہ صرف دعووں سے۔” ان کا یہ عزم ہے کہ صحافیوں اور ان کے خاندانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ محنت کریں گے اور ان کی قیادت میں لاہور پریس کلب اور صحافی کالونی کے علاقے کی ترقی کی مزید کوششیں جاری رہیں گی۔ یہ ترقیاتی کام لاہور پریس کلب کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور محمد آصف بٹ کی قیادت میں کیے گئے ان اقدامات کو صحافی برادری میں بہت سراہا جا رہا ہے۔ ان کی محنت اور پیشہ ورانہ رہنمائی نے ثابت کر دیا کہ ترقیاتی منصوبوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے صرف نیت اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ حکومتی امداد کی۔


Shares: