سرکاری ڈاکٹر یا کاروباری شخصیت؟مظفرآباد کے مریضوں کا استحصال
تحریر:سیدہ کنزا نقوی
بات کی جائے سرکاری ہسپتالوں کی تو پاکستان بھر میں یہ حالات ہیں کہ مریض کا چیک اپ کروانے کے لیے سفارش کی ضرورت پڑتی ہے، اور اگر آپ کے پاس تگڑی سفارش نہ ہو تو پھر آپ کو پرائیویٹ ہسپتال میں ہی اپنا علاج معالجہ کروانے کے لیے جانا ہوگا، کیونکہ سرکاری ہسپتالوں میں بغیر سفارش کے آپ کو سہولیات ملنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن بنا دی گئی ہیں۔ ایسا ہی حال آزاد کشمیر مظفرآباد کے سرکاری ہسپتالوں کا بھی ہے، جہاں پر بھی کئی حیران کن واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ ڈاکٹرز کی غفلت سے مریض جان کی بازی ہار جاتے ہیں، غلط آپریشن کی وجہ سے مریض کی حالت بگڑ جاتی ہے یا سفارش نہ ہونے کی وجہ سے مریض کو داخل نہیں کیا جاتا۔
یہ سارا خوف اس لیے پیدا کیا جاتا ہے کہ عوام سرکاری ہسپتالوں کے بجائے ان ڈاکٹروں کے پرائیویٹ کلینک پر چیک اپ کے لیے جائیں جو خود سرکاری ہسپتالوں میں تعینات ہیں۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب مریض سرکاری ہسپتال میں ٹیسٹ وغیرہ کروانے جاتا ہے تو اسے ڈرایا جاتا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کی مشینری ناقابل اعتبار ہے جو کبھی چلتی ہے اور کبھی رک جاتی ہے۔ اس پر آنے والی ٹیسٹ رپورٹ بھی ناقابل اعتماد ہوتی ہے، اس لیے مریضوں کو پرائیویٹ کلینک جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے، جہاں ان سے تسلی بخش چیک اپ کا وعدہ کیا جاتا ہے۔
یوں مریضوں کو بدظن کر کے انہیں پرائیویٹ کلینک پر بلایا جاتا ہے اور پھر الٹراساؤنڈ، ایکسرے وغیرہ کے نام پر بھاری فیسیں وصول کی جاتی ہیں۔ جو مریض ان ڈاکٹروں کے نجی کلینک پر جانے سے انکار کر دے، اسے یہ کہہ کر ذلیل کیا جاتا ہے کہ سرکاری ہسپتال میں سہولیات کا فقدان ہے اور اسے ایسے نظرانداز کیا جاتا ہے جیسے وہ انسان نہیں بلکہ کوئی جانور ہو۔
جو مریض سرکاری ہسپتال میں علاج معالجہ کے لیے آتے ہیں، اگر وہ پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکوں کی بھاری فیس چکانے کی استطاعت رکھتے ہوں تو وہ کبھی بھی سرکاری ہسپتال کا رخ نہ کریں۔ پرائیویٹ کلینکوں پر ٹیسٹ کروانے کی بھاری فیسیں، جیسے 1900 روپے یا 1200 روپے الٹراساؤنڈ کے لیے، غریب مریضوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔
یہاں یہ بات کرنا لازم ہے کہ اگر سرکاری ہسپتالوں میں تعینات ڈاکٹرز نے مریضوں کو اپنے پرائیویٹ کلینک پر بلا کر لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھنا ہے اور حکمران یونہی ان ڈاکٹروں کی غنڈہ گردی پر خاموش رہیں گے تو ان سرکاری ہسپتالوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ عوام کو یہ علم ہو کہ انہیں علاج کے لیے بھاری فیس ادا کرنی ہوگی۔
حکومت وقت سے چند سوالات ہیں:
کیا سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر کا نجی کلینک چلانا قانونی ہے؟
کیا ان کلینکوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے؟
کیا حکومت اور متعلقہ ادارے ان کے خلاف کارروائی کریں گے؟
عوام کا مطالبہ ہے کہ متعلقہ ادارے اس معاملے کی تحقیقات کریں اور عوام کے ساتھ ہونے والے اس استحصال کو روکیں کیونکہ سرکاری تنخواہ پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کو نجی کلینک کے ذریعے مریضوں کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔