برطانیہ میں بچوں کا غیر محفوظ طریقے سے ختنہ کرنے والے ڈاکٹر محمد صدیقی کو 5 سال 7 ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس مقدمے میں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بچوں کے ختنوں کے دوران حفاظتی تدابیر اور صفائی کے اصولوں کو نظرانداز کیا، جس کے باعث متعدد بچوں کو شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈاکٹر محمد صدیقی کا غیر محفوظ طریقے سے ختنہ کرنے کا عمل بچوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا۔ ان کے طریقے نے کئی بچوں کو شدید درد میں مبتلا کیا اور کئی بچوں کو اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ ان میں سے ایک بچہ تو موت کے منہ میں جانے کے قریب تھا، لیکن وقت پر علاج کے باعث وہ بچہ بچ گیا۔ڈاکٹر محمد صدیقی 58 سالہ برمنگھم کے رہائشی تھے اور وہ یونیورسٹی اسپتال ساؤتھمپٹن این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ میں بطور ڈاکٹر خدمات انجام دے رہے تھے۔ تاہم انہوں نے اضافی آمدنی کے لیے گھروں میں جا کر ختنہ کرنے کا غیر قانونی کاروبار شروع کیا تھا۔ حکام نے ان کی سرگرمیوں کا پتہ چلنے پر انہیں پہلے معطل کیا اور پھر ان کا نام جنرل میڈیکل کونسل (جی ایم سی) کے رجسٹر سے خارج کردیا۔لیکن اس کے باوجود، ڈاکٹر صدیقی نے بچوں کے ختنے کے عمل کو جاری رکھا اور اس دوران انہوں نے صحت و صفائی کے تمام اصولوں کو نظرانداز کیا۔ ہیمپشائر پولیس کے تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر محمد صدیقی بچوں کے لئے خطرات اور ان کی تکالیف کے حوالے سے بالکل بے حس تھے اور انہوں نے اپنے عمل کے سنگین نتائج پر کوئی توجہ نہیں دی۔

سابق ڈاکٹر محمد صدیقی نے 25 جرائم کا اعتراف کیا ہے، جن میں بچوں کو غیر محفوظ طریقے سے ختنہ کرنے کی وارداتیں شامل ہیں۔ عدالت نے کہا کہ انہوں نے مقدمے کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی، مگر جج نے ان کی تمام کوششوں کو ناکام بنایا اور انہیں سخت سزا دینے کا فیصلہ کیا۔یہ کیس نہ صرف طبی اخلاقیات کی پامالی کا معاملہ ہے بلکہ یہ ایک سنگین مثال بھی پیش کرتا ہے کہ کس طرح بعض افراد ذاتی مفاد کے لیے بچوں کی صحت اور زندگی سے کھیلتے ہیں۔ اس فیصلے نے برطانیہ میں طبی خدمات کے نظام کے حوالے سے عوامی تحفظ کو مزید اہمیت دی ہے۔

190 ملین پاؤنڈ ریفرنس، فیصلے سے قبل اڈیالہ جیل کی سیکورٹی سخت

ملک میں گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ریکارڈ

Shares: