سپریم کورٹ میں بینچز کے اختیارات کے کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے پر توہینِ عدالت کے کیس میں ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ نذر عباس نے شوکاز نوٹس کا جواب عدالت میں جمع کروا دیا۔

بینچز کے اختیارات کا کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل بینچ نے کی، ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے عدالت سے شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کر دی،ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے کہا ہے کہ عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی، عدالتی حکم پر بینچ بنانے کے معاملے پر نوٹ بنا کر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا تھا،عدالت نے کہا کہ ہمارے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں ججز کمیٹی کیس واپس لے سکتی تھی؟عدالتی معاون وکیل حامد خان نے کہا کہ کچھ ججز کو کم اختیارات ملنا اور کچھ کو زیادہ، ایسا نہیں ہو سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ سوال الگ ہے، اگر ہم آرٹیکل 191 اے کی تشریح کا کیس سنتے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا تھا، ہمارے سامنے کیس ججز کمیٹی کے واپس لینے سے متعلق ہے، چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس امین الدین خان ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، بادی النظر میں دو رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا، اگر ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کریں تو معاملہ فل کورٹ میں جا سکتا ہے، اس سوال پر معاونت دیں،جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے اس معاملے پر کنفیوژن تو ہے، جسٹس عقیل عباسی نے حامد خان سے سوال کیا کہ آپ آرٹیکل 191 اے کو کیسے دیکھتے ہیں؟ ماضی میں بینچز ایسے بنے جیسے معاملات پر رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار تھا، اب سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات ختم کر دیے گئے ہیں، 26ویں آئینی ترمیم کا سوال آجائے گا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا کسی ملک میں بینچز عدلیہ کے بجائے ایگزیکٹو بناتا ہے؟ کوئی ایک مثال ہو؟وکیل حامد خان نے کہا کہ بینچز عدلیہ کے بجائے ایگزیکٹو بنائے ایسا کہیں نہیں ہوتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 191 اے کے تحت آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن بنائے گا۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ 191 اے کو سامنے رکھیں تو کیا یہ اوور لیپنگ نہیں ہے؟

وکیل حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کمزور نہیں کر سکتی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کمیٹی جوڈیشل آرڈر فالو نہیں کرتی تو پھر کیا ہو گا؟ عدالتی معاون وکیل حامد خان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے پاس آئینی بینچ کے کیسز مقرر کرنے کا اختیار ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ راجہ عامر کیس میں بھی فل کورٹ بنا تھا۔حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے علاوہ ہر عدالت کے دائرہ اختیار کا فیصلہ کر سکتی ہے، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو کم نہیں کر سکتی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 2 اے کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کیس واپس لے سکتی ہے یا نہیں؟ کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کر سکتی ہے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کرنے والی صورتِ حال نہیں ہونی چاہیے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980ء کے تحت فل کورٹ چیف جسٹس بنائیں گے یا پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی؟ کیا جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوایا جاسکتا ہے؟،وکیل حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارات بڑھا سکتی ہے، کم نہیں کر سکتی، آرٹیکل 191 اے میں آئینی بینچز کا ذکر ہے، سپریم کورٹ میں ایک آئینی بینچ کا ذکر نہیں، کم از کم 5 ججز پر مشتمل ایک آئینی بینچ ہو سکتا ہے، اس صورتِ حال میں 3 آئینی بینچز بن سکتے ہیں، جو سینئر ہو گا وہی بینچ کا سربراہ ہو گا، آرٹیکل 191 اے ججز کمیٹی کے سیکشن 2 اے سے ہم آہنگ نہیں اس لیے خلاف آئین ہے۔

فیصلہ تو آئینی بینچ کرتا ہے ہم تو یہاں گپ شپ کے لئے بیٹھے ہیں ہم کونسا آئینی بنچ ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ
سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ اور احسن بھون کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا،جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا میں شکر گزار ہوں آپ ایک دن کے نوٹس پر تشریف لائے،احسن بھون بولے جناب کا حکم تھا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کا شکریہ آپ تو ہمارا حکم مانتے ہیں ،جس پر عدالت میں قہقے لگ گئے،احسن بھون نے کہا کہ ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے امید ہے آپ کوئی آئین کے منافی فیصلہ نہیں کریں گے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فیصلہ تو آئینی بینچ کرتا ہے ہم تو یہاں گپ شپ کے لئے بیٹھے ہیں ہم کونسا آئینی بنچ ہیں۔ عدالت میں دوبارہ قہقے لگ گئے،

عدالتی معاونین شاہد جمیل،ایڈووکیٹ حامد خان اور منیر اے ملک نے فل کورٹ بنانے کی حمایت کر دی،حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارات بڑھا سکتی ہے، کم نہیں کر سکتی،

جسٹس منصور علی شاہ اور احسن بھون کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا، احسن بھون نے کہا کہ آپ ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، آپ بیٹھیں یا نہ بیٹھیں یہ الگ بات ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں تو جوڈیشل کمیشن کا بھی ممبر ہوں، احسن بھون نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ججز بھی لگائے جا رہے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انھیں تو ایک ہی ووٹ ملتا ہے وہ بھی ہمارا ہی ہوتا ہے،باقیوں کو گیارہ گیارہ ووٹ پڑ جاتے ہیں،

کیس واپس ہونے لگے تو یہ عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے،جسٹس منصور علی شاہ
بیرسٹر صلاح الدین نے فل کورٹ بنانے کے حوالے سے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا تو جسٹس منصور علی شاہ نے کہا مجھے یہ بھی بتادیں کہ ان فیصلوں پر عمل ہوا تھا؟کیا فل کورٹ بنائی گئی تھی تو صلاح الدین بولے بلکل ہوا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے ہم فل کورٹ کا فیصلہ دے کر بیٹھ جائیں فیصلہ کہیں ادھر ادھر پڑا رہے عمل درآمد ہو نہ اس پر تو فائدہ،کمیٹی کے پاس کیس واپس لینے کا اختیار کدھر سے آگیا۔کیس ہمارے سامنے کمیٹی نے لگایا۔اس طرح سے کیس واپس ہونے لگے تو یہ عدلیہ کے آزادی کے منافی ہے،اگر ہم کوئی فیصلہ دیتے تو نظر ثانی میں بڑا بینچ بنا دیتے۔

سپریم کورٹ، بینچز اختیارات کیس، توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ
بینچز اختیارات کیس میں ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کے خلاف توہین عدالت کیس میں فیصلہ محفوظ کرلیا گیا،عدالتی معاون وکیل احسن بھون نے کہا کہ چیف جسٹس کمیٹی کے سامنے معاملہ رکھیں، پارلیمنٹ کا اختیار دو تہائی اکثریت کے ساتھ وفاق میں قانون سازی کرناہے، کمیٹی بینچ کے سامنے ٹھیک کیسز مقرر کرتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس پھر کیاکریں؟ یعنی آپ کہہ رہےہیں کمیٹی نےٹھیک کیا؟ مسئلہ کمیٹی کے سامنے رکھیں؟ احسن بھون نے جواب دیا فل کورٹ جوڈیشل آرڈر کےتحت نہیں ہوسکتا ورنہ فساد ہوجائےگا، یہاں ادارے کوتباہ کرنے میں لوگ لگے ہوئے ہیں، ہرکوئی اپنی پارلیمنٹ،اپنے ججز، اپنی سپریم کورٹ چاہتا ہے، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم ادارے کو بچانے کے لیے ہی لگے ہوئے ہیں۔

سماعت میں اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ توہین عدالت کے لیے موجودہ بینچ درست طور پر تشکیل نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ رولز کے تحت توہین عدالت کا بینچ تشکیل دینے کے لیے چیف جسٹس فیصلہ کریں گے، اس بینچ کے پاس توہین عدالت کی سماعت کا اختیار نہیں، یہ معاملہ دیوانی یا فوجداری توہین کے دائرے میں آتا ہے، توہین عدالت کا پورا پروسیجر دیا گیا ہے جو چیف جسٹس کے اختیار میں ہے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد میں سنایا جائیگا۔

پیسہ زندگی میں کتنی اہمیت کا حامل؟ مبشر لقمان کا یو ای ٹی میں طلبا سے خطاب

جب سے موجودہ حکومت خیبر پختونخوا میں آئی ہے صوبہ تباہ ہو گیا ،عوام پھٹ پڑی

Shares: