گداگری ایک لعنت
تحریر: ریحانہ صبغتہ
گداگری کے لفظی معنی ہاتھ پھیلانا، منگتا، سوالی اور بھکاری کے ہیں،یوں تو ہمارے ملک میں بےشمار مسائل ہیں، لیکن جس طرح گداگری نے ملک کو بری طرح سے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، وہ ناقابلِ یقین ہے۔گداگری ایک ایسا سماجی رویہ ہے جس میں معاشرے کا کمزور اور پسا ہوا طبقہ اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کی مدد کا محتاج ہوتا ہے۔
گداگری ہمارے ملک میں باقاعدہ ایک پیشہ بن گیا ہے اور لوگ جوق در جوق اس میں شامل ہو رہے ہیں، بلکہ پاکستان میں گداگری ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے جو کہ معاشی، معاشرتی اور اقتصادی طور پر معاشرے کو پستی اور ذلت کا شکار کر رہی ہے، جس سے عزتِ نفس اور محنت کی عظمت کے تمام خیالات و نظریات بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
گلیوں، بازاروں، مزاروں، اسپتالوں، شاپنگ مالز، سگنلز، بس اسٹاپ، شادی ہال اور ہر جگہ گداگروں کی بڑھتی تعداد، جس میں بچے، بوڑھے، جوان، خواتین اور بچیاں سب ہی آپ کو ہاتھ پھیلاتے نظر آئیں گے۔یہ درست ہے کہ بعض لوگ بھوک اور افلاس سے مجبور ہو کر بھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں، لیکن ایسے بھکاریوں کا کیا علاج ہے جو اپنے آپ کو مجبور ظاہر کر کے بھیک مانگتے ہیں؟ ان گداگروں نے بھیک مانگنے کے نئے طریقے ایجاد کر رکھے ہیں۔
کچھ لوگ بھیک کی آڑ میں لوگوں کی جیبیں کاٹتے ہیں۔کچھ لوگ ملنگ اور فقیروں کا روپ دھار کر خواتین سے بڑی بڑی رقمیں بٹورتے ہیں۔اکثر لوگوں کا یہ ذہن ہوتا ہے کہ اگر اس گداگر کو خالی ہاتھ واپس بھیجا تو ہو سکتا ہے آسمان گر پڑے۔بعض لوگ بھیک کو پیشہ بنا لیتے ہیں کیونکہ انہیں بغیر محنت کے بہت کچھ مل جاتا ہے۔بعض لوگ روزی کمانے کے لیے اپنے بچوں سے بھیک منگواتے ہیں، اس طرح یہ مسئلہ دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے، اس لیے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ بھکاریوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔تقریباً آدھے سے زیادہ گداگر کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں لیکن انہوں نے گداگری کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے۔
گلی کوچوں میں گداگروں کا صدا لگانا، سڑکوں پر بھیک مانگنا، ہر جلسے اور عبادت گاہ کے دروازے پر ان کا وجود قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
گداگری نہ صرف ملک و قوم کے لیے بدنامی اور ذلت کا سبب ہے بلکہ یہ بہت سے جرائم کو بھی جنم دیتی ہے، جن میں ناجائز منافع خوری، ڈکیتی، لوٹ مار، قتل، انسانی اسمگلنگ، بھتہ خوری، چوری، فراڈ، دھوکہ دہی اور راہزنی قابلِ ذکر ہیں۔
ملک میں بڑھتے ہوئے گداگری کے مسئلے نے سنگین نوعیت اختیار کر لی ہے لیکن اشرافیہ خوابِ خرگوش کے مزے لے کر میٹھی نیند سو رہی ہے، اور اس مسئلے کی طرف ان کی کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔جوں جوں گداگروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، ملک میں غربت زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔
اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ گداگری کا خاتمہ ہو تو سب سے پہلے اس کی وجوہات جیسے غربت، افلاس، بھوک، بے راہ روی، بیماری، ذہنی توازن، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری، منشیات، جسمانی کمزوری اور جہالت جیسے سنگین جرائم کا خاتمہ کرنا ہوگا، لیکن افسوس کہ پاکستانی اعلیٰ حکام کی ابھی اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔
غلط اور فرسودہ نظام کے ذریعے پیدا ہونے والی برائیوں کے مقابلے اور خاتمے کے لیے منظم جدوجہد کرنا ہوگی۔
الغرض معاشرے میں گداگری کی وجوہات کچھ بھی ہوں، گداگری ایک لعنت ہے، جس کا مستقل حل یہ ہے کہ:
بے روزگاری کو ختم کیا جائے۔
بھکاریوں کو خیرات، عطیات یا کھانا دینے کی بجائے انہیں محنت کرنے کا درس دیا جائے کہ وہ اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر سب کچھ کر سکتے ہیں۔
حکومت معذور افراد کے لیے ایسی مہارتیں فراہم کرے تاکہ وہ معذور ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ناکارہ نہ سمجھیں۔ضعیف اور نادار لوگوں کے لیے مضبوط پناہ گاہیں اور شیلٹر ہومز بنائے جائیں جو حکومت کی زیرِ سرپرستی ہوں۔گداگری کو قانوناً جرم قرار دینا چاہیے تاکہ کوئی بھی مانگنے سے پہلے سو بار سوچے۔حکومتِ وقت کو گداگری کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے سخت سے سخت اقدامات کرنے چاہئیں، اور عوام الناس بھی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرے۔
اگر ان سخت اقدامات سے گداگری کی لعنت کو ختم کیا جا سکتا ہے تو ہمیں مل جل کر اپنے اپنے حصے کی شمع روشن کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ملکِ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔اگر ہم نے وقت پر گداگروں کا سدِباب نہ کیا تو ہو سکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ زوال کا شکار ہو جائے، اور ہمارے پاس پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہ بچے۔