گنویری والا: ہڑپہ وموہنجودڑو سے بھی قدیم سات ہزار سالہ سرائیکی تہذیب کا مرکز
تحقیق و تحریر:ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
altafkhandahir@gmail.com
خلاصہ :یہ آرٹیکل سرائیکی خطے کی قدیم تہذیب و تمدن، خاص طور پر گنویری والا شہر کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ گنویری والا، جو ہڑپہ اور موہنجودڑو سے قدیم ہے، وادی ہاکڑہ کے کنارے واقع ایک عظیم تاریخی مرکز رہا ہے۔ آرٹیکل میں علم آثار قدیمہ کی اہمیت بیان کی گئی ہے، جو قدیم تہذیبوں اور تمدن کے مطالعے کا ذریعہ ہے اور یہ آرٹیکل تین اقساط پر مشتمل ہے .اس سلسلے کی دوسری قسط ملاحظہ فرمائیں
سرائیکی قدیم چولستان کے تاریخی تمدنی مرکزی شہر گنویری والا کی دریافت اور کھدائی
دوسری قسط کا خلاصہ
زمین میں دفن شہر گنویری والا چولستان کی ایک سات ہزار سال پرانی سرائیکی تہذیب وتمدن کا مرکز ہے۔1970ء تا 1975ء میں ڈاکٹر رفیق مغل کی قیادت میں اس کی کھدائی کے لیے ابتدائی کاوشیں سامنے آئیں۔جس سے ثابت ہوا کہ یہ شہر مقامی سرائیکی تہذیب و ثقافت اور زبان کا آئینہ کا ہے۔یہاں کی قدیم دستکاری،زیورات اور مٹی کے برتن دنیا بھر میں گئے۔ تحقیق سے چولستان کی تہذیب کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا گیا، قبل از ہڑپائی، ہاکڑہ دور، ابتدائی ہڑپائی دور، عروج یافتہ ہڑپائی دور اور متاخر ہڑپائی دور۔ گنویری والا شہر وادی سندھ تہذیب وتمدن کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔اس وجہ سے وادی ہاکڑہ سرسوتی تہذیب وتمدن کو وادی سندھ کی تہذیب وتمدن کی ماں مانا گیا۔اور اس کی اہمیت عالمی سطح پر تسلیم کی گئی ہے۔
دوسری قسط
احمدپور شرقیہ کی ہردلعزیز بردبار روحانی شخصیت بڑے بھائی دوست ماہر فلکیات و کلینکل سائیکالوجیسٹ جام اسد عباس لاڑ جن کی علم فلکیات پر شاندار کتاب”علم نجوم بحیثیت رہبر وجوہ نفسیاتی عوارض”سال 2024ء منظر عام پر آئی ہے۔ایک دن دوران گفتگو اُن سے سوال کیا کہ گنویری والا چولستان کی تاریخی،تمدنی،تہذیبی اور ثقافتی حیثیت آپ کے علم کے مطابق کیا ہوسکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں دھیمے لہجے میں جناب اسد لاڑ نے کہا کہ قدرت اب صحرائی علاقوں کو دوبارہ عروج یافتہ بنائے گی۔میرا ماننا ہے کہ دنیا کے تمام ریگستان ہزاروں سال پہلے دریاؤں کی گزر گاہ رہ چکے ہیں۔مجھے میرا علم بتا رہا ہے کہ سرائیکی روہی چولستان میں قدیم آٹھ ہزار سال تہذیب وتمدن کے آثار لازمی ہوں گے۔واللہ اعلم بالصواب۔باقی میرا اللہ پاک بہتر جانتا ہے۔اب اس حوالے سے تحقیقاتی آرکیالوجی تھیوری سے عملی حقائق تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
گنویری والا چولستان کی باقاعدہ کھدائی کے لیے عملی اقدامات سابق ماہر آثار قدیمہ ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر رفیق مغل کی دن رات محنت سے 1970ء سے 1975ء کے دوران سامنے آئے۔ اس کا نتیجہ مارچ 2024ء میں سرکاری فنڈز کی مد میں 20 ملین یعنی 2 کروڑ روپے کی لاگت سے کھدائی کا تاریخی مرحلہ دیکھنے کو ملا ،جب ڈاکٹر رفیق مغل اپنی آرکیالوجی ٹیم سابق کمشنر بہاولپور ڈویژن ڈاکٹر احتشام انور کے ساتھ مل کر سرائیکی وسیب کی عالمگیر قدامت کا گہوارہ شہر گنویری والا کی کھدائی کا آغاز کیا۔
راقم الحروف نے اپنے آرکیالوجسٹ دوست اعجاز الرحمن بلوچ اور جام غلام یاسین لاڑ کے ساتھ 2022ء میں اس مقام کا دورہ کیا۔جہاں برجی گنویری والا کی مخصوص شکل کو دیکھا گیا۔ڈاکٹر رفیق مغل نے اپنے تھیسس کے ذریعے ثابت کیا کہ گنویری والا شہر روہی چولستان کی اپنی مقامی تہذیب کا حصہ ہے اور یہ تمدن باہر سے نہیں آئی بلکہ مقامی طور پر پروان چڑھی۔
روہی چولستان کے قدیم تاریخی تمدنی سات ہزار سالہ شہر گنویری والا کی عظمت کی بنیاد پر ہی وادی ہاکڑہ سرسوتی تہذیب و تمدن کو وادی سندھ تہذیب و تمدن کی ماں مانا گیا ہے۔دنیا کی اہم تہذیبوں میں وادی نیل کی مصری اہرامی تہذیب وتمدن اور وادی دجلہ و فرات کی میسوپوٹیمیا سمیرین تہذیب وتمدن کو وادی سندھ تہذیب وتمدن کا ہم عصر مانا جاتا ہے۔
پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
گنویری والا: ہڑپہ وموہنجودڑو سے بھی قدیم سات ہزار سالہ سرائیکی تہذیب کا مرکز(پہلی قسط)
تاہم بیل گاڑی،مہریں،مٹی کے برتن،ایک سینگ والے جانور کی مورتیاں
،زیورات،زراعت کے اوزار اور دستکاریوں کے قدیم تاریخی شواہد نے سرائیکی علاقے روہی چولستان کے بہاولپوری ثقافتی شہر گنویری والا کو سات ہزار سال پرانا شہر تسلیم کیا ہے۔
مختلف میڈیا رپورٹس اور ادارہ آرکیالوجی پاکستان کی پریس ریلیز کے مطابق گنویری والا سات ہزار سال پرانا شہر ہے۔پاکستان کے مایہ ناز پہلے آرکیالوجسٹ ڈاکٹر رفیق مغل کی ریسرچ کے مطابق وادی سندھ تہذیب و تمدن کی بنیاد ابتدائی ہڑپائی تمدن (2500 سے 3200 قبل مسیح) کے ساتھ دریائے ہاکڑہ سرسوتی تہذیب و تمدن کے شہر گنویری والا پر پروان چڑھی۔
آرکیالوجی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ قدیم افغانستان سے ملنے والے انسانی زیورات اور گنویری والا سے دریافت ہونے والے نمونے ایک جیسے ہیں۔اس عظیم تہذیب کے لوگوں کی دستکاریوں کے قدیم شاہکار تجارت کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک رسائی حاصل کی۔
چولستان روہی اور سرائیکی وسیب کی اس منفرد تہذیب کے وارث شہر کو قدیم تہذیبی ارتقاء کے اعتبار سے ابنِ حنیف کی کتاب "سات دریاؤں کی سرزمین” (فکشن ہاؤس لاہور، اول 1997ء، دوم 2017ء) میں نمایاں مقام دیا گیا ہے۔اس کتاب کے صفحہ نمبر 27 پر ڈاکٹر رفیق مغل کی 1974ء سے 1977ء کے دوران موسم سرما میں چولستان وادی ہاکڑہ سرسوتی تہذیب کے چار دوروں کا ذکر موجود ہے۔
رگ وید سنسکرت زبان میں دریائے سرسوتی ندی کی عظمت کا خوبصورت تذکرہ موجود ہے،جو اس تہذیب کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔رگ وید میں مقدس سرسوتی سرائیکی ندی کی شان میں بھجن، جسے سرائیکی شاعر و محقق ڈاکٹر نصراللہ خان ناصر نے اپنی کتاب "سرائیکی شاعری دا ارتقاء” کے صفحہ نمبر 28 پر درج کیا۔اس طرح ہے:
سرسوتی امدی ہے شور و غل کریندی ہوئی
غذا گھن تے اساڈے کیتے حصن حصین ہے۔
آریہ قوم نے سنسکرت زبان میں مقدس ویدک لٹریچر جیسے رگ وید میں مقدس ندی دریائے سرسوتی کے علاوہ دریائے سندھ، ستلج، چناب، بیاس، راوی، جہلم، گنگا، جمنا دیوتاؤں اور دریاؤں کی شان میں قصیدے لکھے۔
ڈاکٹر رفیق مغل نے چولستان میں 424 قدیم بستیاں دریافت کیں۔بیٹی وادی سندھ تہذیب و تمدن جو دراصل ماں وادی ہاکڑہ سرسوتی گھارا، گھاگھرا تہذیب و تمدن کی کوکھ سے پیدا ہوئی، اس کی آغوش میں پلی بڑھی۔ ہاکڑہ چولستان تمدن کو 3000/4000 قبل مسیح کا عہد کہا گیا ہے اور اسے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے.
1۔ قبل از ہڑپائی دور (3000/2500 ق م)
2۔ ہاکڑہ دور (3000/3500 ق م)
3۔ ابتدائی ہڑپائی دور (2500/3200 ق م)
4۔ عروج یافتہ ہڑپائی دور (2000/2500 ق م)
5۔ متاخر ہڑپائی دور (1800 ق م)
روہی چولستان کے قدیم تہذیبی و تمدنی باقیات اولین انسانی شعور کی بنیادیں ہیں۔ڈاکٹر رفیق مغل کے تحقیقی کام کو غیر ملکی ماہرین آثارِ قدیمہ میں پنسلوانیا یونیورسٹی آف امریکہ کے لوئی فیم،ڈیلز،شیفر، مارشیا،میڈو، لیمبرگ اور کارلووسکی نےقدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔مصنف صدیق طاہر کی روہی چولستان کی قدامت پر "وادی ہاکڑہ اور اس کے آثارِ قدیمہ” کے نام سے ایک بہترین کتاب الگ پہچان رکھتی ہے۔
سرائیکی خطے کی قدیم تہذیب و تمدن میں کھلے گھر،نکاسی آب کا انتظام، لباس و زیورات کا شوق، واش رومز اور دیگر دستکاریوں کا ہنر ان کی روزمرہ زندگی گزارنے کا مضبوط ثقافتی اور تاریخی شاندار قصہ ہے۔مجسمہ سازی، کوزہ گری،کانسی کے بت چولستانی تمدنی ثقافتی اقدار کے عروج کی گواہی دیتے ہیں۔
سابق خوشحال ریاست بہاولپور کے نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں پرنس میاں عثمان داؤد خان عباسی (سابق ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب) کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود 1974ء میں چھ ہزار سال قدیم روہی چولستان، گنویری والا سمیت چولستانی تہذیب و تمدن کے آثار کی کھدائی کے لیے پراجیکٹ منظور کرایا۔ لیکن بعد میں وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں چولستانی قدیم تاریخی تہذیب و تمدن کی کھدائی کے منصوبے بند کر دیے گئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چولستان سے کچھ قیمتی قدیم نوادرات،جن میں مٹی کے برتن،ہار سنگھار کے نقش،مہریں،سکے وغیرہ شامل ہیں،میرے ایک دوست فرنچ ماہرِ آثارِ قدیمہ نے چولستانی پرانے تہذیبی مقامات سےحاصل کیے۔پھر چند ماہ بعد رپورٹ بھجوائی، جس کے مطابق ان اشیاء کی قدامت 6000 چھ ہزار سال قدیم بتائی گئی۔
میں نے خود (راقم الحروف)ان سے اپنے تھیسز بعنوان مقالہ پی ایچ ڈی شعبہ سرائیکی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور (پاکستان)”سرائیکی لوک قصے اتے چولستانی قصے دے اثرات ” عید الفطر کے موقع پر سال 2021ء میں ملاقات کے دوران معلومات حاصل کیں۔مقامی روہیلے چولستانی کہتے ہیں کہ شدید بارش کے موسم میں قلعوں اور قدیم کھنڈرات میں سے لوگوں کو قیمتی اشیاء ملتی ہیں۔ریسرچ رپورٹ کے مطابق ایک سینگ والے جانور کی مورتیاں بھی ملی ہیں۔
گنویری والا شہر 80 ہیکٹر پر پھیلا ہوا ہے۔روہیلے اس اجڑے ٹھیڑھ کو کالا پہاڑ بھی کہتے ہیں۔جو ایک وقت میں دریائے سرسوتی ندی کے کنارے آباد تھا۔ یہ شہر ہڑپہ سے بڑا ہے۔مگر موہنجو داڑو سے چھوٹا ہے۔ دونوں قدیم شہر کے درمیان کا شہر گنویری والا چولستان لگ بھگ ہڑپہ سے 260 کلومیٹر جب کہ موہنجو داڑو سے 340 کلومیٹر دور ہے۔
جو قومیں اپنے قدیم تاریخی تہذیبی ورثے کی حفاظت کرتی ہیں۔وہی دنیا میں ترقی یافتہ قومیں تصور کی جاتیں ہیں۔ چولستان روہی سرائیکی ڈویژن بہاولپور میں تقریباً 500 قدیم تاریخی آرکیالوجی سائٹس ہیں۔ سرائیکی ریاست بہاولپور جس کو محلوں کا خوبصورت شاندار جدید تاریخی شہر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے ریگستان چولستان میں 19 تاریخی بوسیدہ قلعے اپنے وارثوں کو اپنی تزئین و آرائش اور بقاء کے لیے مٹی کے بوسیدہ در و دیواروں سے فریاد کر رہے ہیں۔
جاری ہے