لاہور(باغی ٹی وی انویسٹی گیشن سیل)عدلیہ سے نکالے گئے سابق جج کی بطور انچارج پرنسپل کرپشن کی ہوشربا داستان

تفصیلات کے مطابق ضلع بہاولپور کی تحصیل احمدپورشرقیہ میں گورنمنٹ صادق عباس گریجویٹ کالج، ڈیرہ نواب صاحب میں کرپشن کا نیا اسکینڈل سامنے آیا ہے، جہاں عدلیہ سے نکالے گئے سابق سول جج محمد شاہد سراج کو انچارج پرنسپل اور ڈرائنگ اینڈ ڈسبرسنگ آفیسر (ڈی ڈی او) تعینات کیا گیا۔ ان کی تعیناتی محکمہ ہائر ایجوکیشن جنوبی پنجاب کے نوٹیفکیشن کے تحت کی گئی، جس کے مطابق وہ 8 نومبر 2024 سے 7 فروری 2025 تک مالیاتی امور کے نگران ہوں گے۔یادرہے کہ سابق سول جج محمد شاہد سراج کو بطورانچارج پرنسپل 5ویں بار ایکسٹینشن دی گئی ہے ،

یہ خبر بھی پڑھیں
کرپشن، اقربا پروری اور بدانتظامی، سابق جج کی بدولت ڈیرہ نواب کالج کیسے تباہ ہوا؟

اب ذرائع کا بتانا ہے کہ 8 فروری کو بھی ان بطورانچارج پرنسپل کے نئے آرڈر آجائیں گے کیونکہ محکمہ ہائرایجوکیشن ساؤتھ پنجاب ملتان میں انہوں نے سب کو راضی کیا ہوا ہے،اس لئے چھٹی بار بھی ہائیکورٹ سے کرپشن کی بنیاد پر نکالے گئے سابق سول جج محمد شاہد سراج کو انچارج پرنسپل بنادیاجائے گا،

محمد شاہد سراج پر کالج کے جناح کیمپس میں قیمتی درختوں کی غیر قانونی کٹائی اور فروخت کے ذریعے سرکاری فنڈز میں خرد برد کا الزام ہے۔ ذرائع کے مطابق، درختوں کی نیلامی کا عمل محکمہ جنگلات کے قوانین کے برخلاف انجام دیا گیا، جس میں نہ تو سرکاری پیمائش ہوئی اور نہ ہی کوئی اشتہار دیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ شاہد سراج نے یہ عمل اعلیٰ حکام کو اعتماد میں لیے بغیر مکمل کیا اور مبینہ طور پر متعلقہ افراد کو ان کا حصہ فراہم کرنے کا دعویٰ بھی کیا۔

مالی بدعنوانی کے الزامات میں امتحانی فیس اور رجسٹریشن فنڈز کی خرد برد بھی شامل ہے۔ ایک مثال 28 مارچ 2024 کو چیک نمبر 8806943924 کے ذریعے دو لاکھ چونسٹھ ہزار روپے کی غیر قانونی نکاسی ہے، جو کالج کے ریکارڈ میں ظاہر نہیں کی گئی۔ اس معاملے میں سابق انگلش شعبہ پروفیسر محمد ایوب عالم کو بھی تفتیش میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اقربا پروری کے تحت سی ٹی آئی بھرتی میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں، جہاں شاہد سراج کی بیٹی عائشہ ارم کو میرٹ لسٹ میں 51ویں نمبر پر ہونے کے باوجود کالج ٹیچنگ انٹرن (CTI) کے طور پر بھرتی کر لیا گیا۔ اسی طرح، امتحانات کے دوران اپنی دوسری بیٹی فاطمہ شاہد کے لیے خود انویجیلیٹر کے فرائض انجام دیے، جو کہ واضح طور پر غیر قانونی ہے۔ مزید یہ کہ، بارہ طلبہ و طالبات کو جعلی داخلہ دے کر فی کس 45 ہزار روپے وصول کیے گئے، جو سیدھے شاہد سراج کی جیب میں گئے۔

کالج کے مالیاتی ریکارڈ میں رد و بدل اور غیر قانونی سرگرمیوں میں محمد فیصل، عمیر الرحمن چوہان کلرکس، اور دیگر عملہ بھی ملوث بتایا جا رہا ہے۔ جناح کیمپس کی 400 کنال زمین پر ناجائز قبضے کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

طلبہ اور اساتذہ کے لیے بنیادی سہولیات کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے۔ پینے کے پانی کی سہولت موجود نہیں، دو سال سے کالج میگزین شائع نہیں ہوا، اور سالانہ کھیلوں کا انعقاد بھی نہیں کیا گیا۔ کالج میں اشیاء کی چوری معمول بن چکی ہے، جس میں ٹیوب، فریج سٹیپلائزر، اوون، اور درختوں سے پھل تک غائب ہو چکے ہیں۔

متعدد شکایات درج کرانے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔ شہریوں اور طلبہ کی درخواستیں نظر انداز کی جا رہی ہیں، جبکہ اعلیٰ افسران شاہد سراج کی سرپرستی میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ جب ان سے موقف لینے کی کوشش کی گئی، تو انہوں نے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر کچھ ثبوت بھیجے، جو بعد میں فوراً ڈیلیٹ کر دیے گئے۔

یہ بدعنوانی صرف مالی خرد برد تک محدود نہیں رہی بلکہ تعلیمی ماحول بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ شاہد سراج نے پرنسپل اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے کالج کو تفریحی مقام بنا دیا، جہاں پارٹیوں، انڈین گانوں پر رقص اور مشکوک محفلوں کا انعقاد معمول بن چکا ہے۔

گورنمنٹ صادق عباس گریجویٹ کالج، جو کہ ایک تاریخی تعلیمی ادارہ ہے، کرپشن اور اقربا پروری کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، جبکہ والدین اور شہری شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس بدعنوانی کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تاکہ تعلیمی نظام کو بچایا جا سکے اور ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔

Shares: