بیوی کے ساتھ غیر فطری تعلق، خواہ رضامندی نہ بھی ہو، جرم نہیں،عدالت نے فیصلہ سنا دیا
بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کی ہائی کورٹ نے حالیہ فیصلے میں کہا ہے کہ ایک مرد اور اس کی بالغ بیوی کے درمیان غیر فطری جنسی تعلقات سزا کے قابل نہیں ہیں۔ یہ کیس ایک ایسے مرد کا ہے جس کی بیوی اسپتال میں غیر فطری تعلقات کے بعد انتقال کر گئی تھی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کی موت کی وجہ پیریٹونائٹس (پیٹ کا انفیکشن) اور ریکٹل پرفوریشن (مستقیم آنت میں سوراخ) تھی۔
بھارت میں شادی شدہ خواتین کے ساتھ زنا (مارٹل ریپ) کو قانون کے تحت جرم نہیں سمجھا جاتا۔ اب ہائی کورٹ کے فیصلے نے غیر فطری تعلقات کو بھی سزا کے دائرے سے باہر کر دیا ہے۔مرد کو غیر فطری تعلقات اور قتل کی کوشش کے الزام میں ٹرائل کورٹ نے مجرم قرار دیا تھا، لیکن ہائی کورٹ سے اس نے راحت حاصل کی ہے،فیصلے میں کہا گیا کہ اگر بیوی کی عمر 15 سال سے زیادہ ہو تو "کسی بھی جنسی تعلق” یا جنسی عمل کو شوہر کے لیے زنا کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس کے نتیجے میں بیوی کی غیر فطری عمل کے لیے رضامندی کی عدم موجودگی کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔اس فیصلے کے مطابق، IPC کی دفعہ 376 اور 377 کے تحت مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا۔
"شوہر اور بیوی کے درمیان جرم کی کوئی نوعیت نہیں بنتی جیسا کہ دفعہ 375 IPC میں ترمیم کے بعد اور دونوں دفعات کے مابین تضاد کی وجہ سے” فیصلے میں لکھا گیا۔
مذکورہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا جہاں شادی کے دوران بیوی کی رضامندی کے بغیر جنسی تعلقات کو مجرمانہ قرار دینے کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ تاہم، سماعت اس وقت معطل ہو گئی جب چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندراچود ریٹائر ہونے والے تھے۔ایک نیا بنچ اس معاملے کی سماعت کرے گا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ شادی کے ادارے کی حفاظت ضروری ہے اور شادی کے اندر بیوی کی رضامندی کو مجرمانہ نہ بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ پارلیمنٹ نے شادی شدہ خواتین کی رضامندی کے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔